Sunday, June 28, 2015

حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث 16 (حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہوں گے)

0 comments
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث (حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہوں گے)

حدیث نمبر:۱۶…
’’اخرج ابن جریر وابن ابی حاتم عن الربیعؓ قال ان النصاریٰ اتوا رسول اﷲﷺ فخا صموہ فی عیسیٰ ابن مریم وقالوا لہ من ابوہ وقالوا علی اﷲ الکذب والبہتان فقال لہم النبیﷺ الستم تعلمون انہ الا یکون ولد الا وھو یشبہ اباہ قالوا بلیٰ قال الستم تعلمون ان ربنا حی لا یموت وان عیسیٰ یأتی علیہ الفنا فقالوا بلیٰ‘‘
(درمنثور ج۲ ص۳، زیر آیت ھو الحی القیوم)
عظمت وصحت حدیث
اس حدیث کی عظمت کا اندازہ آپ اسی امر سے لگا سکتے ہیں کہ امام ابن جریرؒ جیسے مفسر اعظم ومحدث معتبر مسلم قادیانی (دیکھو حدیث نمبر۱۵ کی ذیل میں) نے اپنی تفسیر میں اس کو درج کیا ہے اورامام جلال الدین سیوطیؒ نویں صدی کے مجدد وامام مسلم قادیانی نے بھی اپنی شہرہ آفاق تفسیر درمنثور میں اس کو صحیح لکھا ہے۔ 
’’ربیع کہتے ہیں کہ نجران کے عیسائی رسول کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں (یعنی توحید وتثلیث پر بحث شروع کر دی) اور کہنے لگے کہ (اگر عیسیٰ علیہ السلام خدا کا بیٹا نہیں ہے تو بتاؤ) اس کا باپ پھر کون ہے۔ لگے اﷲ پر جھوٹ اور بہتان جڑنے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ولد اﷲ کہنے سے) رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ بیٹا باپ سے مشابہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا۔ کیوں نہیں؟ پھر رسول کریمﷺ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے ہو کہ اﷲتعالیٰ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا۔ حالانکہ یقینا عیسیٰ علیہ السلام پر موت طاری ہوگی۔ تو انہوں نے کہا۔ کیوں نہیں۔‘‘
ناظرین! اس حدیث سے روز روشن کی طرح چند نتائج مندرجہ ذیل ہویدا ہیں۔
۱… اگرحضرت عیسیٰ علیہ السلام فی الواقعہ فوت ہو چکے ہوتے تو رسول پاکﷺ ’’وان عیسیٰ یأتی علیہ الفنا‘‘ یعنی عیسیٰ علیہ السلام پر موت طاری ہوگی۔ نہ فرماتے بلکہ آپ فرماتے کہ ’’وان عیسیٰ قد اتٰی علیہ الفنائ‘‘ کہ عیسیٰ علیہ السلام پر موت طاری ہوچکی ہے۔ مگر آپﷺ نے ایسا نہیں فرمایا بلکہ فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام پر موت آئے گی۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ رسول کریمﷺ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ بجسدہ العنصری مانتے تھے۔
۲… الزامی جواب دینا مناظرہ ومباحثہ میں مسلم ہے اور ایسا جواب ہوتا بھی بالکل فیصلہ کن ہے۔ جیسا کہ ہم نے اس کتاب میں اپنے طرز استدلال کو بہت حد تک قادیانی مسلمات تک ہی محدود رکھا ہے۔ اسی طرح رسول کریمﷺ کو پتہ تھا کہ اگر عیسائی اور یہودی عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب پر مر جانے کے قائل ہیں۔ گویا عیسیٰ علیہ السلام کا فوت شدہ ہونا یہودی مسلمات اور عیسائی مظنونات میں سے ہے اور موت الوہیت کی (خدائی کی) شان کے منافی (خلاف) ہے۔ اس واسطے رسول کریمﷺ ان کے مسلمات کی رو سے کہہ سکتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام تو تمہارے عقیدہ کے مطابق فوت ہوچکے ہیں۔ وہ خدا کیسے ہوسکتے ہیں؟ اور یہ الزامی جواب آپ کا بالکل درست تھا۔
مگر قربان جائیں اس رحمتہ اللعالمین کی دوراندیشی اور ہمدردی کے جو آپﷺ نے اپنے ہر ہر فعل اور ہر ایک قول میں مدنظر رکھی ہے۔ آنحضرتﷺ نے مناظرانہ رنگ میں مسکت اور لاجواب الزامی کی بجائے تحقیقی جواب سے کام لیا جو ببرکت نبوت واقعی ہی لاجواب ثابت ہوا۔ امت مرحومہ کے ساتھ ہمدردی اور شفقت اس بات میں مضمر تھی کہ اگر آپﷺ کی زبان مبارک سے یہ لفظ نکل جاتے (یعنی عیسیٰ علیہ السلام تو تمہارے خیال میں مر چکے ہیں) تو قادیانی ضرور اسے قول نبوی ثابت کر کے وفات عیسیٰ علیہ السلام پر دلیل کے طور پیش کرتے۔ پس اس طرز استدلال سے رسول کریمﷺ نے قادیانیوں کا ناطقہ بند کردیا اور امت مرحومہ کے ہاتھ میں زبردست دلیل حیات عیسیٰ علیہ السلام پر چھوڑ گئے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔