Sunday, June 28, 2015

حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث 15 (عیسیؑ فوت نہیں ہوئے اور قیامت سے پہلے واپس لوٹیں گے)

0 comments
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث (عیسیؑ فوت نہیں ہوئے اور قیامت سے پہلے واپس لوٹیں گے)

حدیث نمبر:۱۵…
’’عن الحسنؒ قال قال رسول اﷲﷺ لیہود ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ‘‘

(درمنثور ج۲ ص۳۶، زیر آیت یا عیسیٰ انی متوفیک)
’’امام حسن بصریؓ روایت کرتے ہیں کہ فرمایا رسول کریمﷺ نے یہود کو مخاطب کر کے کہ تحقیق عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے اور بیشک وہ تمہاری طرف واپس آئیں گے قیامت سے پہلے۔‘‘
تصدیق حدیث
۱… یہ حدیث بیان کی ہے امام حسن بصریؒ نے جو ہزارہا اولیاء کرام اور بیسیوں مجددین امت کے روحانی پیشوا ہیں۔
۲… اس حدیث کو روایت کیا امام جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی تفسیر درمنثور میں اور امام جلال الدینؒ تھے نویں صدی کے مجدد اعظم۔
نیز قادیانی نے ان کی شان میں لکھا ہے کہ: ’’وہ صحیح اور ضعیف حدیث میں فرق رسول کریمﷺ سے براہ راست ملاقات کر کے معلوم کر لیا کرتے تھے۔‘‘ 

(ازالہ خورد ص۱۵۱، خزائن ج۳ ص۱۷۷)
۳… پھر یہی حدیث قادیانیوں کے مسلم مجدد وامام صدی ششم امام ابن کثیرؒ نے بھی باسناد صحیح اپنی تفسیر میں درج کی ہے۔ اس کا انکار قادیانیوں کے نزدیک فسق اور کفر ہے۔
۴… پھر اس حدیث کو ابن جریرؒ نے بھی صحیح قبول کر لیا ہے۔ جو صحیح معنوں میں مفسر اور محدث تھے۔

(دیکھو چشمہ معرفت ص۲۵۰ حاشیہ، خزائن ج۲۳ ص۲۶۱)
ہاں ہاں یہ وہی ابن جریرؒ مفسر قرآن ہے جس کی تفسیر کے بے مثل ہونے پر اجماع امت ہے۔
دیکھئے قادیانیوں کے مسلم مجدد صدی نہم امام جلال الدین سیوطیؒ تفسیر اتقان میں امام ابن جریر کے متعلق یوں فرماتے ہیں:
’’اجمع العلماء المعتبرون علیٰ انہ لم یؤلف فی التفسیر مثلہ‘‘

(اتقان ج۲ ص۳۲۵)
’’معتبر علماء امت کا اجماع ہے کہ ایسی تفسیر کسی نے نہیں لکھی۔‘‘ اس مرتبہ کے بزرگ نے اس حدیث کو اپنی تفسیر میں صحیح سمجھ کر درج کیا ہے۔
۵… قادیانیوں کے بہت بڑے عالم مولوی محمد احسن امروہی نے بھی اپنی کتاب (شمش بازغۃ ص۷۰) پر اس حدیث کو صحیح تسلیم کیا ہے۔
قادیانی اعتراض
یہ حدیث مرسل ہے۔ اس واسطے قابل قبول نہیں یعنی حدیث مرفوع نہیں۔
جواب… اس کی صحت اور عظمت کے دلائل جو اوپر بیان کئے گئے ہیں۔ اوّل تو وہی کافی ہیں۔ مگر مناظرین کے کام کی چند باتیں اور عرض کرتا ہوں۔
۱… اجی! حضرات آپ یہ میٹھا میٹھا ہڑپ اور کڑوا کڑوا تھو، ہمارے سامنے نہیں کر سکتے۔ آپ ہر مجلس میں کسوف وخسوف والی حدیث کو پیش کیا کرتے ہو۔ حالانکہ وہ حدیث رسول نہیں ہے۔ یعنی یہ قول ’’ان لمہدینا آیتین‘‘ راوی اس عبارت کو حدیث رسول نہیں کہتا۔ مگر باوجود اس کے اپنی خودغرضی کے لئے اسے حدیث رسول مانتے ہو یا نہ؟ بالعکس اس کے ہماری پیش کردہ حدیث تو حدیث رسول ہے۔ جیسا کہ راوی زبدۃ العارفین رئیس المکاشفین حضرت امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں۔
’’قال رسول اﷲﷺ‘‘ جب حسن بصریؒ جیسا راوی اس حدیث کو حدیث رسول کہتا ہے تو اس مذکورہ بالا قول کے ساتھ ذرا مقابلہ تو کرو۔
پھر لطف یہ ہے کہ قادیانیوں کا یہ اعتراض ناشی از جہالت ہے۔ خود مرزاقادیانی ناشی اپنی تعلیمی حالت ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔
’’بخدا یہ سچ اور بالکل سچ ہے اور قسم ہے مجھے اس ذات کی۔ جس کے ہاتھ میری جان ہے کہ درحقیقت مجھ میں کوئی علمی اور عملی خوبی یا ذہانت اور دانشمندی کی لیاقت نہیں اور میں کچھ بھی نہیں۔‘‘

(ازالہ اوہام ایک خط کا جواب ص۱۶، خزائن ج۳ ص۶۳۵)
پھر دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی (اصل اسی طرح ہے۔ ابوعبیدہ) حال ہے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے۔ یا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے۔‘‘ 

(ایام الصلح ص۱۴۷، خزائن ج۱۴ ص۳۹۴)
باقی رہا مرزائی علماء کا حال سو وہ فنا فی القادیان ہیں اور ہزماسٹرس وائس کا مصداق ہیں۔ ہر کہ درکان نمک رفت نمک شد۔
حدیث دراصل مرسل نہیں بلکہ مرفوع ہی ہے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ امام حسن بصریؒ نے جو احادیث حضرت علیؓ سے روایت کی ہیں۔ ان میں وہ حضرت علیؓ کا نام قصداً حذف کر دیتے ہیں۔ تہذیب الکمال للمزی میں ان کا قول یوں درج ہے۔
’’کل شیٔ سمعتنی اقول فیہ قال رسول اﷲﷺ فہو عن علیؓ ابن ابی طالب غیر انی فی زمان لا استطیع ان اذکر علیا‘‘
میں جتنی احادیث میں قال رسول اﷲﷺ کہوں اور صحابی کا نام نہ لوں سمجھ لو کہ وہ علیؓ ابن طالب کی روایت ہے۔ میں ایسے (سفاک دشمن آل رسول حجاج کے) زمانے میں ہوں کہ حضرت علیؓ کا نام نہیں لے سکتا۔
لیجئے! دوسری شہادت ملاحظہ کیجئے اور شہادت بھی اس شخص کی جس کو قادیانی جماعت مجدد وامام صدی دہم تسلیم کر چکی ہے۔
یعنی ملا علی قاریؒ شرح نخبہ میں فرماتے ہیں:
’’وکان قد یحذف اسم علیؓ ایضا بالخصوص لخوف الفتنۃ‘‘
یعنی امام حسن بصریؒ فتنہ کے خوف سے حضرت علیؓ کا نام مبارک روایت میں خاص طور سے حذف کر جاتے تھے۔
حضرات! اب کس قادیانی کا منہ ہے کہ اپنے ہی ایک مجدد کی شہادت کے برخلاف اس حدیث کو مرسل کہہ کر جان چھڑا سکے؟ پھر لطف یہ ہے کہ اگر اس حدیث کو مرسل بھی مان لیں تو بھی اس کی عظمت حجیت میں فرق نہیں پڑتا۔ وہ بھی اہل اسلام کے لئے حجت اور دلیل ہے۔ چنانچہ وہی ملا علی قاریؒ قادیانیوں کے مسلم مجدد فرماتے ہیں۔
’’قال جمہور العلماء المرسل حجۃ مطلقاً‘‘ شرح نخبہ
’’یعنی جمہور علماء اسلام کے نزدیک مرسل حدیث بھی قطعی حجت ہے۔‘‘
نتائج

حضرات! جب اس حدیث کی عظمت ایسے پیرایہ سے ثابت ہو چکی کہ قادیانیوں کو سوائے سرتسلیم خم کرنے کے اور کوئی جائے فرار باقی نہیں رہی تو ہم اس حدیث سے ایسے نتائج بیان کرتے ہیں جو ہر ذکی اور فہیم آدمی کو خود بخود نظر آتے ہیں۔
۱… چونکہ یہ قول رسول کریمﷺ کا یہود کے خطاب میں ہے۔ اس واسطے یہودیوں کے عقیدہ باطلہ قتل مسیح کا رد فرمارہے ہیں اور ایسے الفاظ سے فرماتے ہیں کہ وہ سب قسم کی موت پر حاوی ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’ان عیسیٰ لم یمت‘‘ تحقیق عیسیٰ نہیں مرے۔
اس میں موت بالصلیب اور موت طبعی سب قسم کی موت سے انکار کر رہے ہیں۔
۲… قادیانی جماعت کی پیش کردہ تاویل یا تفسیر کہ عیسیٰ علیہ السلام واقعہ صلیبی سے ۸۷برس بعد طبعی موت سے کشمیر میں فوت ہوگئے تھے۔ اس کا رد بھی فرمارہے ہیں۔
۳… ’’وانہ راجع الیکم‘‘ اور بالتحقیق عیسیٰ علیہ السلام تمہاری طرف واپس آئیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس دنیا میں وہ موجود نہیں کہیں باہر گئے ہوئے ہیں۔
وہ کہاں ہیں؟ ہم قرآنی دلائل وحدیثی شواہد سے ثابت کر چکے ہیں کہ وہ آسمان پر ہیں۔
نکتۂ عظیمہ

اﷲ علاّم الغیوب نے رحمتہ اللعالمینﷺ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق جاری فرمادئیے کہ قادیانی جدھر بھاگتا ہے۔ آگے سے پھانس لیتے ہیں۔ اس حدیث میں آنحضرتﷺ نے ’’نازل‘‘ کے لفظ کو ترک کر کے اور ’’راجع‘‘ کا لفظ استعمال کر کے تیرہ سو سال بعد آنے والے ایک مدعی نبوت ومسیحیت کا ناطقہ بند کر کے امت مرحومہ پر وہ احسان فرمایا ہے کہ واﷲ میں تو صرف اسی ایک احسان کے بوجھ سے پسا جارہا ہوں۔ قادیانی ’’نبی‘‘ مرزاغلام احمد قادیانی لکھتا ہے۔
’’اگر اس جگہ (حدیث میں) نزول کے لفظ سے یہ مقصود تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آسمان سے آئیں گے تو بجائے نزول کے رجوع کہنا چاہئے تھا۔ کیونکہ جو شخص واپس آتا ہے اس کو عرب زبان میں راجع کہا جاتا ہے۔ نہ نازل۔‘‘

(ایام الصلح ص۱۴۶، خزائن ج۱۴ ص۳۹۲)
دوسری جگہ لکھتا ہے:
’’اگر کوئی شخص آسمان سے واپس آنے والا ہوتا تو اس موقعہ پر رجوع کا لفظ ہونا چاہئے تھا۔ نہ کہ نزول کا لفظ۔‘‘

(چشمہ معرفت ص۲۲۰، خزائن ج۲۳ ص۲۲۹)
قادیانی ناظرین سے ایک مودبانہ درخواست

مرزاقادیانی کا چیلنج دوبار رجوع وراجع آپ نے ملاحظہ فرما لیا اور حدیث بھی آپ نے پڑھ لی۔ حدیث کی عظمت پر بھی آپ ہی کے مسلمہ مجددین اور آئمہ کرام کی شہادت ثبت کرادی گئی ہے۔ مرزاقادیانی بیچارے تو علم حدیث سے محض کورے اور خالی تھے۔ انہیں یہ صحیح درصحیح مرسل نہ بلکہ مرفوع حدیث (جیسا کہ ہم ثابت کر چکے ہیں) معلوم نہ تھی۔ مگر آپ کے سمجھانے کے لئے ایک اصول ضرور لکھ گئے۔ یعنی اگر حدیث میں رجوع کا لفظ موجود ہوتو پھر بالیقین عیسیٰ علیہ السلام کا حیات ورفع جسمانی خود بخود ثابت ہوجائے گا۔
پس اگر اسلام کی خاطر نہیں تو کم ازکم مرزاقادیانی کی خوشنودی کی خاطر ہی آپ رجوع کے لفظ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے عقیدہ باطلہ سے رجوع کر لیں۔
۴… ’’قبل یوم القیامۃ‘‘ کے الفاظ اسلامی تفسیر کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر رہے ہیں۔ ’’انہ لعلم للساعۃ‘‘ کی مکمل شرح ہے۔ ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن‘‘ پر پوری روشنی ڈال رہے ہیں۔
۵… آنحضرتﷺ فرمارہے ہیں کہ آنے والا عیسیٰ علیہ السلام (غلام احمد ابن چراغ بی بی نہ ہوگا) بلکہ وہی ابن مریم ہوگا جو نہیں مرا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔