Sunday, June 28, 2015

توفی کی پرلطف بحث اور توفی پر قادیانیوں کی پیش کردہ آیات کی حقیقت

0 comments
توفی کی پرلطف بحث
میرے معزز ناظرین! توفی کی تفسیر میں نے ایسے مفسرین کی زبان سے بیان کر دی ہے کہ جس آدمی میں ذرا بھی انصاف اور حق پرستی کا مادہ ہو۔ وہ قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ یہ سارے حضرات قادیانی اور لاہوری مرزائیوں کے مسلمہ مجددین گزرے ہیں اور مجدد علوم لدنیہ اور آیات سماویہ کے ساتھ علوم قرآنیہ کی صحیح تعلیم کے لئے مبعوث ہوتے ہیں۔ وہ دین میں نہ کمی کرتے ہیں نہ زیادتی۔
(قادیانی اصول نمبر۴)
مگر تاہم چونکہ قادیانی مناظر ہر جگہ توفی کے متعلق بڑی تحدی اور زور سے چیلنج دیا کرتے ہیں۔ لہٰذا مناسب سمجھتا ہوں کہ بقدر ضرورت میں بھی اس پر روشنی ڈال کر اپنے ناظرین کو حقیقت حال سے مطلع کر دوں۔ پہلے میں مرزاقادیانی کے خیالات کو ان کی کتابوں کے حوالہ سے ’’توفی کی بحث‘‘ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اس کے بعد خود اپنا ’’مافی الضمیر‘‘ عرض کروں گا۔
سوال نمبر:۱… توفی کے حقیقی معنی کیا ہیں؟
جواب نمبر:۱… از مرزا ’’توفی کے حقیقی معنی وفات دینے اور روح قبض کرنے کے ہیں۔‘‘
جواب نمبر:۲… ’’توفی کے معنی حقیقت میں وفات دینے کے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۰۱، خزائن ج۳ ص۴۲۵)
سوال نمبر:۲… توفی کے مجازی معنی کیا ہیں؟
جواب… ’’(قرآن شریف میں) دونوں مقامات میں نیند پر توفی کے لفظ کا اطلاق کرنا ایک استعارہ ہے جو بہ نصب قرینہ نوم استعمال کیاگیا ہے۔ یعنی صاف لفظوں میں نیند کا ذکر کیاگیا ہے۔ تاہر ایک شخص سمجھ لے کہ اس جگہ توفی سے مراد حقیقی موت نہیں ہے۔ بلکہ مجازی موت مراد ہے جو نیند ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۳۲، خزائن ج۳ ص۲۶۹)
سوال نمبر:۳… قرآن کریم میں یہ لفظ کن معنوں میں استعمال ہوا ہے؟
جواب نمبر:۱… از مرزاقادیانی: ’’قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک جس جس جگہ توفی کا لفظ آیا ہے۔ ان تمام مقامات میں توفی کے معنی موت ہی لئے گئے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۲۴۶، خزائن ج۳ ص۲۲۴ حاشیہ)
جواب نمبر:۲… ’’توفی کے سیدھے اور صاف معنی جو موت ہیں وہی اس جگہ (قرآن کریم میں) چسپاں ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۲۴۶، خزائن ج۳ ص۲۲۴)
جواب نمبر:۳… ’’ابھی ہم ظاہر کر چکے ہیں کہ قرآن کریم اوّل سے آخر تک صرف یہی معنی ہر ایک جگہ مراد لیتا ہے کہ روح کو قبض کر لینا اور جسم سے کچھ تعلق نہ رکھنا بلکہ اس کو بیکار چھوڑ دینا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۴۲، خزائن ج۳ ص۳۹۱)
سوال نمبر:۴… از ابوعبیدہ: ’’مرزاقادیانی! یہ کیسے معلوم ہو کہ کوئی لفظ کس جگہ اپنے حقیقی معنوں میں مستعمل ہوا اور کس جگہ مجازی معنوں میں؟‘‘
جواب… از مرزاقادیانی: ’’اس بات کے دریافت کے لئے کہ متکلم نے ایک لفظ بطور حقیقت مسلمہ استعمال کیا ہے یا بطور مجاز اور استعارہ نادرہ کے بھی کھلی کھلی علامت ہوتی ہے کہ وہ حقیقت مسلمہ کو ایک متبادر اور شائع ومتعارف لفظ سمجھ کر بغیر احتیاج قرائن کے یونہی مختصر بیان کر دیتا ہے۔ مگر مجاز یا استعارہ نادرہ کے وقت ایسا اختصار پسند نہیں کرتا۔ بلکہ اس کا فرض ہوتا ہے کہ کسی ایسی علامت سے جس کو ایک دانشمند سمجھ سکے۔ اپنے اس مدعا کو ظاہر کر جائے کہ یہ لفظ اپنے اصلی معنوں پر مستعمل نہیں ہوا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۳۳، خزائن ج۳ ص۲۶۹)
سوال نمبر:۵… از ابوعبیدہ: ’’مرزاقادیانی! سچ سچ فرمائیے کہ موت یا حیات دینے کا اختیار خدا کے سوا کسی اور ہستی کو بھی ہوسکتا ہے؟‘‘
جواب… از مرزاقادیانی: ’’خداتعالیٰ اپنے اذن اور ارادہ سے کسی شخص کو موت اور حیات ضرر اور نفع کا مالک نہیں بناتا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۱۴، خزائن ج۳ ص۲۶۰ حاشیہ)
سوال نمبر:۶… از ابوعبیدہ: ’’قرآن شریف میں توفی کا لفظ کتنی جگہ آیا ہے۔ ذرا مکمل فقرات کی صورت میں پیش کیجئے؟‘‘
جواب… از مرزاقادیانی:
۱… ’’والذین یتوفون منکم (بقرہ)‘‘
۲… ’’والذین یتوفون منکم (بقرہ)‘‘
۳… ’’حتیٰ یتوفہن الموت (نسائ)‘‘
۴… ’’توفہم الملئکۃ ظالمی انفسہم (نسائ)‘‘
۵… ’’توفتہ رسلنا (انعام)‘‘
۶… ’’رسلنا یتوفونہم (اعراف)‘‘
۷… ’’اذیتوفی الذین کفروا الملئکۃ (انفال)‘‘
۸… ’’فکیف اذا توفتہم الملئکۃ یضربون وجوہہم (محمد)‘‘
۹… ’’الذین تتوفہم الملئکۃ ظالمی انفسہم (نحل)‘‘
۱۰… ’’الذین تتوفہم الملئکۃ طیبین (نحل)‘‘
۱۱… ’’قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم (الم سجدہ)‘‘
۱۲… ’’واما نرینک بعض الذی نعدہم (ونتوفینک) (یونس)‘‘
۱۳… ’’واما نرینک بعض الذی نعدہم (ونتوفینک) (رعد)‘‘
۱۴… ’’واما نرینک بعض الذی نعدہم (ونتوفینک) (مؤمن)‘‘
۱۵… ’’ثم یتوفکم (نحل)‘‘
۱۶… ’’ومنکم من یتوفیٰ (حج)‘‘
۱۷… ’’ومنکم من یتوفیٰ (مؤمن)‘‘
۱۸… ’’وتوفنا مع الابرار (آل عمران)‘‘
۱۹… ’’توفنا مسلمین (اعراف)‘‘
۲۰… ’’توفنی مسلما والحقنی بالصالحین (یوسف)‘‘
۲۱… ’’ھو الذی یتوفکم بالیل ویعلم ماجرحتم بالنہار ثم یبعثکم فیہ لیقضی اجل مسمیٰ (انعام)‘‘
۲۲… ’’اﷲ یتوفی الانفس حین موتہا والتی لم تمت فی منامہا فیمسک التی قضی علیہا الموت ویرسل الاخریٰ الی اجل مسمیٰ (زمر)‘‘ 

(ازالہ اوہام ص۳۳۰،۳۳۳، خزائن ج۳ ص۲۶۸)
سوال نمبر:۷… ازابوعبیدہ: ’’مرزاقادیانی! آپ نے آیات نقل کرنے میں دیانت سے کام نہیں لیا۔ صرف آخری دو آیتیں کما حقہ نقل کی ہیں۔ میں ہر ایک آیت کے متعلق ابھی مفصل عرض کروں گا۔ مگر اتنا تو آپ کے اصول سے سمجھ میں آگیا کہ اگر میں ثابت کر دوں کہ توفی کے حقیقی معنی موت دینا نہیں بلکہ جس طرح آپ توفی کے مجازی معنی نیند دینا مانتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح ہم توفی کے مجازی معنی موت دینا بھی مانتے ہیں۔ دلائل ذیل میں ملاحظہ کیجئے اور پھر ایمان سے فرمائیے کہ آپ کے جھوٹا ہونے میں کوئی شک ہے؟‘‘
توفی کے حقیقی معنی کسی چیز کو اپنے تمام لوازمات کے ساتھ قبضہ میں کر لینا ہے۔ وجہ ملاحظہ کریں:

۱… توفی کا لفظ وفا سے نکلا ہوا ہے اور باب تفعل کا صیغہ ہے۔ اسی طرح ایفاء توفیہ اور استیفاء بھی اسی مادہ وفاء سے بالترتیب باب افعال، تفصیل اور استفعال کے صیغے ہیں۔ اب یہ بات تو ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ کسی صیغہ کے حقیقی معنوں میں مادے (اصلی روٹ) کے معنی ضرور موجود رہتے ہیں۔ پس ان سب صیغوں میں وفا کے معنی پائے جانے ضروری ہیں۔ وفاء کے معنی ہیں پورا کرنا۔ معمولی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ باب تفعل اور استفعال میں اخذ یعنی لینے کے معنی زائد ہو جاتے ہیں۔ پس توفی اور استیفا کے معنی ہوئے۔ ’’اخذ الشیی وافیاً‘‘ یعنی کسی چیز کو پورا پورا لے لینا۔ یعنی تمام جزئیات سمیت قابو کر لینا۔ چنانچہ ہم اپنی تصدیق وتائید میں ماہرین زبان عرب کے اقوال پیش کرتے ہیں۔
الف… ’’اساس البلاغہ‘‘ میں لکھا ہے: ’’استوفاہ وتوفاہ استکملہ‘‘ یعنی استیفاء اور توفی دونوں کے معنی پورا پورا لے لینا ہے۔
ب… (لسان العرب ج۱۵ ص۳۵۹) میں بھی یہی لکھا ہے۔
ج… تفسیر کبیر میں علامہ فخرالدین رازی مجدد صدی ششم نے بھی دونوں کو ہم معنی قرار دیا ہے۔

۲… مرزاقادیانی! آیت نمبر۴،۵،۷تا۱۱ میں توفی کرنے والے فرشتے قرار دئیے گئے ہیں اور آپ کے جواب نمبر:۵ میں آپ نے فرمایا ہے کہ موت وحیات بغیر خدا کے کوئی دے نہیں سکتا۔ پس ماننا پڑے گا کہ اگر توفی کے حقیقی معنی موت دینے کے ہیں تو پھر فرشتے آپ کے نزدیک خدا ٹھہریں گے اور اگر فرشتے خدا نہیں اور یقینا نہیں تو پھر توفی کے حقیقی معنی موت دینا نہیں ہوسکتے اور یقینا نہیں ہوسکتے؟

۳… آیات نمبر:۱،۲ میں ’’یتوفون ویتوفون‘‘ دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔
پہلی صورت میں فعل مجہول ہے اور دوسری صورت میں معروف ہے۔ دوسری صورت میں توفی بمعنی موت کرنے، ناممکن ہیں۔ کیونکہ والذین اس کا فاعل ضمیر ہے۔ مرزا قادیانی! آپ کے معنی قبول کر لیں تو یوں معنی کرنے پڑیں گے۔ ’’وہ لوگ جو اپنے آپ کو موت دیتے ہیں۔‘‘ یہ بالکل بے معنی ہوا۔ اس سے بھی ثابت ہوا کہ توفی کے حقیقی موت دینا نہیں۔

۴… آیت نمبر:۳ میں یتوفی کا فاعل الموت ہے۔ اگر توفی بمعنی موت دینا ہو تو آیت کے معنی یوں کریں گے۔ یہاں تک کہ موت ان کو موت دے دے۔
مرزاقادیانی! کچھ تو انصاف کیجئے! کیا موت ہم کو موت دیا کرتی ہے یا خدا؟ موت تو خدا دیتا ہے۔ پس اس سے بھی ثابت ہوا کہ توفی کے حقیقی معنی موت دینا نہیں۔

۵… قرآن شریف میں توفی کے معنی بطور مجاز جہاں موت دینا کئے گئے ہیں۔ وہاں اسی فعل کا فاعل یا تو خدا ہے یا فرشتے۔ یا موت یا خود آدمی۔ حالانکہ اس کے برعکس اماتت جس کے حقیقی معنی موت دینا ہے۔ اس کا فاعل قرآن کریم یا حدیث نبوی یا اقوال صحابہؓ یا اقوال اہل لسان میں کسی جگہ بھی سوائے خدا کے اور کسی کو قرار نہیں دیا۔ اگر توفی کے حقیقی معنی موت ہیں تو قرآن کریم میں اس کا فاعل بھی سوائے خدا کے اور کوئی نہ ہوتا۔ پس اﷲتعالیٰ کا دونوں فعلوں کے فاعل مقرر کرنے میں اس قدر اہتمام کرنا ثابت کرتا ہے کہ اگر اماتت کے حقیقی معنی موت دینا ہے تو یقینا توفی کے حقیقی معنی موت دینا نہیں ہو سکتے۔ ورنہ وجہ بتائی جائے کہ کیوں سارے قرآن کریم میں احیاء اور اماتت کے استعمال میں نسبت فاعلی خدا نے اپنی طرف کی ہے اور توفی میں سب طرح جائز رکھا ہے؟

۶… آپ نے جس قدر آیات نقل کی ہیں۔ اگر مکمل پڑھی جائیں تو ہر ایک میں قرینہ موت موجود ہے۔ مثلاً:
آیت نمبر:۱… میں آپ نے صرف اتنا نقل کیا ہے۔ ’’والذین یتوفون منکم‘‘ اور اس کے آگے ’’ویذرون ازواجاً وصیۃ لا زواجہم متاعاً الیٰ الحول غیر اخراج‘‘ ’’تم میں سے جو لوگ اپنی عمر پوری کر لیتے ہیں۔ (یعنی فوت ہو جاتے ہیں) اور چھوڑ جاتے ہیں اپنی عورتیں۔ وہ وصیت کر جایا کریں اپنی بیبیوں کے واسطے۔‘‘
آیت نمبر:۲… میں بھی ’’ویذرون ازواجاً یتربصن بانفسہن اربعۃ اشہر وعشراً‘‘ یہاں بھی بیبیوں کا پیچھے چھوڑ جانا اور ان کی عدت کا حکم صاف صاف قرینہ صارفہ موجود ہے۔ یعنی یتوفون کے معنی ہوں گے اپنی عمر پوری کر لینا۔
اسی طرح آیات نمبر۴ سے۱۱ تک موت کے فرشتوں کا فاعل ہونا قرینہ ہے۔ بعض میں حیات کا ذکر کرنے کے بعد توفی کا استعمال ہوا ہے۔ جو قرینہ کا کام دیتا ہے۔ بعض آیات میں خاتمہ بالخیر کی دعا قرینہ موت موجود ہے۔ آیت نمبر:۲۱ میں باللیل وغیرہ قرینہ نیند کا موجود ہے۔ اس واسطے یہاں توفی کے معنی نیند دینا ہے۔ ورنہ اگر توفی کے حقیقی معنی موت کے ہوں تو مرزاقادیانی کو ماننا پڑے گا کہ تمام دنیا رات کو حقیقی موت مرجاتی ہے۔ صبح پھر دوبارہ زندہ ہوجاتی ہے (اور یہ بات مرزائیوں کے نزدیک بھی صحیح نہیں)
آیت نمبر۲۲ تو توفی کے معنوں کا فیصلہ ہی کر دیتی ہے۔ توفی کا مفعول انفس ہے یعنی روح۔ اگر آپ کے معنی قبول کر لئے جائیں تو ماننا پڑے گا کہ اﷲ روح کو موت دے دیتا ہے۔ حالانکہ یہ امر بالکل غلط ہے۔ ہاں پھر ’’والتی لم تمت فی منامہا‘‘ (اور اﷲ ان روحوں کی بھی توفی کرتا ہے جن پر موت وارد نہیں ہوئی) کا اعلان کرکے مرزاقادیانی! آپ کے سارے تانے بانے کو توڑ پھوڑ دیا ہے۔ کیونکہ یہاں توفی کا حکم بھی جاری ہے اور لم تمت (نہیں مریں یعنی زندہ ہیں)کا اعلان بھی ہورہا ہے۔ یعنی توفی کا عمل ہو جانے کے بعد بھی آدمی کا زندہ رہنا ممکن ہی نہیں بلکہ ہر روز کروڑہا انسانوں پر اس کا عمل ہورہا ہے۔ غرضیکہ اس آیت میں ایک ہی لفظ توفی مستعمل ہوا ہے۔ اس کے معنی مجازی طور پر مارنے کے بھی ہیں اور مجازی طور سلانے کے بھی۔

نتیجہ… آپ نے سوال جواب نمبر۴ میں فرمایا تھا کہ اگر کوئی لفظ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہوتو اس کے ساتھ قرائن نہیں ہوتے اور جن کے ساتھ قرینہ موجود ہو۔ وہ ضرور مجازی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ ان تمام آیات میں موت اور نیند کے معنی کرنے کے لئے زبردست قرائن موجود ہیں۔ اس واسطے ثابت ہوا کہ توفی کے حقیقی معنی صرف اخذ الشیٔ وافیاً یعنی کسی چیز کو پوری طرح اپنے قبضہ میں کر لینا ہے اور اس کے معنی کرتے وقت قرینہ کا ضرور خیال رکھنا ہوگا۔ بغیر قرینہ کے اس کو اپنے حقیقی معنوں سے پھیرنا جائز نہ ہوگا۔

۷… قرآن شریف میں حیوٰۃ اور اس کے مشتقات کے مقابلہ پر صرف موت اور اس کے مشتقات ہی مستعمل ہیں۔ تمام کلام اﷲ میں کہیں بھی حیات کے مقابلہ پر توفی کا استعمال نہیں ہوا۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ آپ بمعہ اپنی جماعت کے قرآن کریم ہزارہا احادیث رسول کریمﷺ اقوال صحابہؓ، اقوال بزرگان دین اور سینکڑوں کتب لسان عرب سے کہیں ایک ہی ایسا مقام دکھا دو۔ جہاں احیاء (زندہ کرنا) اور توفی (پوری پوری گرفت کرنا) بالمقابل استعمال ہوئے ہیں۔ انشاء اﷲ تاقیامت نہ دکھاسکو گے۔

۸… امام ابن تیمیہ کو مرزاقادیانی آپ ساتویں صدی کا مجدد تسلیم کر چکے ہیں اور مجدد کے فیصلہ سے انحراف کرنے والا فاسق ہوتا ہے۔ دیکھئے وہ فرماتے ہیں:
’’لفظ التوفی فی لغۃ العرب معناہ الاستیفاء والقبض وذالک ثلثۃ انواع احدہا توفی النوم والثانی توفی الموت والثالث توفیٰ الروح والبدن جمیعاً فانہ بذالک خرج عن حال اہل الارض‘‘
(الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح ج۲ ص۲۸۰)
’’لفظ توفی کے معنی ہیں کسی چیز کو پوراپورا لے لینا اور اس کو اپنے قابو میں کر لینا اور اس کی پھر تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک نیند کی توفی ہے۔ دوسری موت کی توفی اور تیسری روح اور جسم دونوں کی توفی ہے اور عیسیٰ علیہ السلام اس تیسری توفی کے ساتھ اہل زمین سے جدا ہوگئے۔‘‘
۹… توفی کے یہی معنی امام فخرالدین رازیؒ آپ کے مجدد صدی ششم اور
۱۰… امام جلال الدین سیوطیؒ آپ کے مجدد صدی نہم بھی تسلیم کر رہے ہیں۔
دیکھئے تفسیر کبیر اور تفسیر جلالین وغیرہ۔ تلک عشرۃ کاملۃ!

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔