Wednesday, July 1, 2015

خاتم النبیین ، ختم نبوت پر جامع نوٹ (حصہ اول)

1 comments
خاتم النبیین پر ایک بہترین ، عمدہ اور معلوماتی تحریر


  1. ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے، جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کئے گئے ہیں . اور عہد نبوت سے لے کر اس عہد تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلا کسی تاویل اور تصخیص کے خاتم النبیین ہیں .​
  2. قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ، رحمت عالم ﷺ کی احادیث متواترہ (دوسو دس احادیث مبارکہ) سے یہ مسئلہ ثابت ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر منعقد ہوا کہ مدعی نبوت کو قتل کیا جائے.​
  3. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ وحیات میں اسلام کے تحفظ و حیات کے لیے جتنی بھی جنگیں لڑیں گئیں ، ان میں شہید ہونے والے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کی کل تعداد 259 ہے .​
  4. عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ ودفاع کے لئے اسلام کی تاریخ کی پہلی جنگ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مسلیمہ کزاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی .​
  5. اس ایک خنگ میں شہید ہونے والے صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین رحمتہ اللہ کی تعداد بارہ سو ہے جن میں 700 سات سو قرآن مجید کے حافظ اور عالم تھے.​
  6. رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کل کمائی اور گراں قدر اثاثہ حضرات صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ ہی ہیں . جن کی بڑی تعداد اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے جام شہادت نوش کر گئی . اس سے ختم نبوت  کے عقیدہ کی عظمت کا اندازہ ہو جاتا ہے .​
عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور فضیلت

حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسلیمہ کزاب کے پاس بھیجا، مسلیمہ کذاب نے حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کو کہا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ؟ 

حضرت حبیب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں ... مسلیمہ نے کہا کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسلیمہ) بھی اللہ کا رسول ہوں؟؟
حضرت حبیب بن ذید انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بہرا ہوں تیری یہ بات نہیں سن سکتا ....
مسلیمہ بار بار سوال کرتا رہا ،وہ یہی جواب دیتے رہے .. 
مسلیمہ آپ کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا حتی' کہ حبیب بن زید رضی اللہ عنہ کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کہ ان کو شہید کردیا گیا..
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہ مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت وعظمت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے ...
اب تابعین رضی اللہ عنہ میں سے ایک تابعی کا ایک واقعہ ملاحظہ ہو ............
"حضرت ابو مسلم خولانی رضی اللہ عنہ جن کا نام عبدللہ بن ثوب رضی اللہ عنہ ہے اور یہ امت محمدیہ کے وہ جلیل القدر بزرگ ہیں جن کے لئے اللہ نے آگ کواس طرح بے اثر فرما دیا ..
جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آتش نمرود کو گلزار بنا دیا . یہ یمن میں پیدا ہوئے تھے .اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں ہی اسلام کے آئے تھے .لیکن ارکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا .
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری دور میں یمن میں نبوت کے جھوٹادعوےدار اسود عنسی پیدا ہوا .جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے پر مجبور کیا کرتا تھا .
اسی دوران اس نے حضرت ابو مسلم خولانی رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی .... حضرت ابو مسلم رضی اللہ عنہ نے انکار کیا پھر اس نے پوچھا کیا تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو ؟؟؟
حضرت ابو مسلم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ...ہاں
اس پر اسود عنسی نے آگ دھکائی اور ابو مسلم لو اس خوفناک آگ میں ڈال دیا ، لیکن اللہ تعالی نے ان کے لئے آگ کو بے اثر کر دیا اور وہ اس سے صحیح سلامت نکل آئے. یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے رفقاء کو اس پر ہیبت سی طاری ہو گئی اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو جلا وطن کر دو . ورنہ خطرہ ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیرووں کے ایمان میں تزلزل آجائے گا. چنانچہ انہیں یمن سے جلا وطن کر دیا گیا .
یمن سے نکل کر آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے .حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب ان سے ملے تو فرمایا : شکر اللہ تعالی کا کہ اس نے مجھے موت سے پہلے اس نے امت محمدیہ صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ اس شخص کی زیارت کرا دی جس کے ساتھ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ اسلام جیسا معاملہ فرمایا "

عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور فضیلت و منصب ختم نبوت کا اعزاز

قرآن مجید میں ذات باری تعالی کے متعلق "رب العالمین" آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے "رحمتہ للعالمین" قرآن مجید کے لئے "زکرللعالمین" اور بہت اللہ کےلئے "ھدی للعالمین " فرمایا گیا ہے.
اس سے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ورسالت کی آفاقییت وعالمگیریت ثابت ہوتی ہے،وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصف ختم نبوت کا اختصاص بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے لئے ثابت ہوتا ہے. اس لئے کے پہلے تمام انبیاء علیہ السلام اپنے اپنے علاقہ مخصوص قوم اور مخصوص وقت کے لئے تشریف لائے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حق تعالی نے کل کائنات کو آپ کی نبوت ورسالت کے لئے اکائی بنا دیا .
جس طرح کل کائنات کےلئے اللہ تعالی "رب" ہے .اسی طرح کل کائنات کےلئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم "نبی" ہیں.
یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزاز اختصاص ہے. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاپنے لئےجن چھے خصوصیات کا زکر فرمایا ان میں سے ایک یہ بھی ہے ::
"میں تمام مخلوق کو نبی بنا کر بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ بند کر دیا گیا "(مشکوہ صفحہ 512 فضائل المرسلین 'مسلم جلد 1 صفحہ 199)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت آخری امت ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قبلہ آخری قبلہ بیت شریف ہے .آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ کتاب آخری آسمانی کتاب ہے .
یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ منصب ختم نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیں جو اللہ تعالی نے پورے کر دیے ہیں.
چنانچہ قرآن مجید کو "زکر للعالمین" بیت اللہ شریف کو "ھدی للعالمین" کا اعزاز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کے صدقے میں ملا ہے.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت آخری امت قرار پائی جیسا کہ ارشاد نبوی ہے "انا آخر الانبیاء وانتم آخرالامم" (ابن ماجہ صفحہ 297)

عقیدہ ختم نبوت قرآنی آیات کی روشنی میں

ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین وکان اللہ بکل شئی علیما۔“ (سورۂ احزاب:40) 
ترجمہ: ”محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے ختم پر ہے اورا للہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔
تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو منصبِ نبوت پر فائز نہیں کیا جائیگا۔

خاتم النبیین کی نبوی تفسیر

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔“(ابوداؤد، ترمذی) اس حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ”خاتم النبیین“ کی تفسیر ”لانبی بعدی“ کے ساتھ خود فرمادی ہے۔اسی لئے حافظ ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت چند احادیث نقل کرنے کے بعد آٹھ سطر پر مشتمل ایک نہایت ایمان افروز ارشاد فرماتے ہیں۔ چند جملے آپ بھی پڑھ لیجئے۔

”اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اکرم نصلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث متواتر کے ذریعہ خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تاکہ لوگوں کو معلوم رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس نے بھی اس مقام (یعنی نبوت) کا دعویٰ کیا وہ بہت جھوٹا‘ بہت بڑا افترا پرداز‘ بڑا ہی مکار اور فریبی‘ خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہوگا‘ اگرچہ وہ خوارق عادات اور شعبدہ بازی دکھائے اور مختلف قسم کے جادو اور طلسماتی کرشموں کا مظاہرہ کرے۔“ (تفسیر ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ جلد3 صفحہ494)

خاتم النبیین کی تفسیر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم و تابعین رحمۃ اللہ علیہم کا مسئلہ ختم نبوت سے متعلق مؤقف کیلئے یہاں پر صرف دوصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی آرأ مبارکہ درج کی جاتی ہیں۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت کی تفسیر میں فرمایا”اور لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخرالنبیین ہیں۔“ (ابن جریر صفحہ 16جلد 22) حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ سے آیت خاتم النبیین کے بارہ میں یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ”اللہ تعالیٰ نے تمام انبیأ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان رسولوں میں سے جو اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے آخری ٹھہرے۔“ (درّ منثور صفحہ204 جلد5) کیا اس جیسی صراحتوں کے بعد بھی کسی شک یا تاویل کی گنجائش ہے؟ اور بروزی یا ظلی کی تاویل چل سکتی ہے؟
خاتم النبیین اور اجماع امت

1) حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”بے شک امت نے بالاجماع اس لفظ (خاتم النبیین) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ رسول، اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں اور اس کا منکر یقینااجماع امت کا منکر ہے۔“

(الاقتصاد فی الاعتقاد صفحہ 123) 
2) علامہ سید محمود آلوسی تفسیر روح المعانی میں زیر آیت خاتم النبیین لکھتے ہیں:اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا ایسی حقیقت ہے جس پر قرآن ناطق ہے، احادیث نبویہ نے جس کو واشگاف طور پر بیان فرمایا ہے اور امت نے جس پر اجماع کیا ہے، پس جو شخص اس کے خلاف کا مدعی ہو اس کو کافر قرار دیا جائے گا اور اگر وہ اس پر اصرار کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔“ (روح المعانی ص 39 ج 22) 
3) امام حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے ذیل میں اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں ”یہ آیت اس مسئلہ میں نص ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں تو رسول بدرجہ اولیٰ نہیں ہوسکتا، کیونکہ مقام نبوت مقام رسالت سے عام ہے۔ کیونکہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ہر نبی رسول نہیں ہوتا او ر اس مسئلہ پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث وارد ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت سے مروی ہے۔
(تفسیر ابن کثیر صفحہ493، جلد3) 
4) امام قرطبی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ”خاتم النبیین کے یہ الفاظ تمام قدیم و جدید علماء کے امت کے نزدیک کامل عموم پر ہیں۔ جو نص قطعی کے ساتھ تقاضا کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (تفسیر قرطبی صفحہ196 جلد14) پس عقیدۂ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کے نصوص قطعیہ سے ثابت ہے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے اور ہر دور میں امت کا اس پر اجماع و اتفاق چلا آیا ہے. سورۂ احزاب کی آیت 40 آیت خاتم النبیین کی تشریح و توضیح پہلے گزر چکی ہے،
اب دوسری آیات ملاحظہ ہوں:
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا“ (سورہ مائدہ: 3) 
ترجمہ: ”آج میں پورا کرچکا تمہارے لئے دین تمہارا‘ اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا‘ اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین۔“
نوٹ:…… یوں تو ہر نبی اپنے اپنے زمانہ کے مطابق دینی احکام لاتے رہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل زمانہ کے حالات اور تقاضے تغیرپذیر تھے‘ اس لئے تمام نبی اپنے بعد آنے والے نبی کی خوشخبری دیتے رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کے اختتام سے دین پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا تمام نبیوں کی نبوتوں اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے پر مشتمل ہے، اسی لئے اس کے بعد ”واتممت علیکم نعمتی“ فرمایا، علیکم یعنی نعمت نبوت کو میں نے تم پر تمام کردیا، لہٰذا دین کے اکمال اور نعمت نبوت کے اتمام کے بعد نہ تو کوئی نیا نبی آسکتا ہے اور نہ سلسلہئ وحی جاری رہ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ایک یہودی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ اے امیر المومنین: ”قرآن کی یہ آیت اگر ہم پر نازل ہوتی ہم اس دن کو عید مناتے“ (رواہ البخاری) ،اور حضور علیہ السلام اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اکیاسی(81) دن زندہ رہے (معارف صفحہ41 جلد3) اور اس کے نزول کے بعد کوئی حکم حلال و حرام نازل نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب کامل و مکمل،آخری کتاب ہے۔
آپ ﷺ کی ذات رحمۃُ اللعالمین

و ما ارسلنک الا کافۃ للناس بشیرا ًو نذیراً۔“ (سورۂ سبا: 28)

ترجمہ: ”ہم نے تم کو تمام دنیا کے انسانوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر بھیجا ہے۔“
قل یٰایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔“ (سورۂ اعراف: 158)
ترجمہ: ”فرمادیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔“
یہ دونوں آیتیں صاف اعلان کررہی ہیں کہ حضور علیہ السلام بغیر استثنأ تمام انسانوں کی طرف رسول ہوکر تشریف لائے ہیں جیسا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”انا رسول من ادرکت حیا و من یولد بعدی۔“ترجمہ: ”میں اس کے لئے بھی اللہ کا رسول ہوں جس کو اس کی زندگی میں پالوں اور اس کے لئے بھی جو میرے بعد پیدا ہو۔“ (کنز العمال جلد11 صفحہ 404 حدیث 31885، خصائص کبریٰ صفحہ 88جلد 2)پس ان آیتوں سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا، قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی صاحب الزماں رسول ہیں۔ بالفرض اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو تو حضور علیہ السلام کا فۃ الناسکی طرف اللہ تعالیٰ کے صاحب الزماں رسول نہیں ہوسکتے بلکہ براہ راست مستقل طور پر اسی نبی پر اور اس کی وحی پر ایمان لانا اور اس کو اپنی طرف اللہ کا بھیجا ہوا اعتقاد کرنا فرض ہوگا، ورنہ نجات ممکن نہیں اور حضور علیہ السلام کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا اس کے ضمن میں داخل ہوگا۔ (معاذ اللہ)
و ما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین۔“ (سورۂ انبیاء: 107) 
ترجمہ: ”میں نے تم کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے۔“
یعنی حضور علیہ السلام پر ایمان لانا تمام جہان والوں کو نجات کے لئے کافی ہے۔ پس اگر بالفرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو اس پر اور اس کی وحی پر ایمان فرض ہوگا، اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کامل رکھتے ہوئے بھی اس کی نبوت اور اس کی وحی پر ایمان نہ لاوے تو نجات نہ ہوگی اور یہ رحمۃ للعالمینی کے منافی ہے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مستقلاً ایمان لانا کافی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب الزمان رسول نہیں رہے؟ (معاذ اللہ)
و الذین یؤمنون بما انزل الیک و ما انزل من قبلک و بالآخرۃ ھم یوقنون۔ اولئک علی ھدی من ربھم و اولئک ھم المفلحون۔“(سورۂ بقرہ: 4،5) 
ترجمہ: ”جو ایمان لاتے ہیں، اس وحی پر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی اور اس وحی پر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نازل کی گئی اور یومِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، یہی لوگ خدا کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔“
یٰایھا الذین آمنوا اٰمنوا باللہ و رسولہ و الکتاب الذی نزل علی رسولہ و الکتاب الذی انزل من قبل۔
(النسأ: 136) ترجمہ: ”اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس کتاب پر جس کو اپنے رسول پر نازل کیا ہے اور ان کتابوں پر جو ان سے پہلے نازل کی گئیں۔“
یہ آیت بڑی وضاحت سے ثابت کررہی ہے کہ ہم کو صرف حضور علیہ السلام کی نبوت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ اگر بالفرض حضور علیہ السلام کے بعد کوئی بعہدۂ نبوت مشرف کیا جاتا تو ضرور تھا کہ قرآن کریم اس کی نبوت اور وحی پر ایمان لانے کی بھی تاکید فرماتا، معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا۔

عقیدہ ختم نبوت حدیث مبارکہ کی روشنی میں

حدیث(1)
”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے انبیأ کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین و جمیل محل بنایا مگر اس کے کسی کونے میں ا یک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے اور اس پر عش عش کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہ لگادی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں وہی (کونے کی آخری) اینٹ ہوں اور میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔“
(صحیح بخاری کتاب صفحہ501 جلد 1، صحیح مسلم صفحہ248 جلد 2)
حدیث(2)
”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے چھ چیزوں میں انبیأ کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے:
  1. مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے
  2. رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی
  3. مال غنیمت میرے لئے حلال کردیا گیا ہے
  4. روئے زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنادیا گیا ہے
  5. مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے
  6. اورمجھ پرنبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔“
(صحیح مسلم صفحہ 199 جلد 1، مشکوٰۃ صفحہ512)
اس مضمون کی ایک حدیث صحیحین میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں، اس کے آخر میں ہے:”وکان النبی یبعث الی قومہ خاصۃ و بعثت الی الناس عامۃ۔“
(مشکوٰۃ صفحہ 512)
ترجمہ: ”پہلے انبیأ کو خاص ان کی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور مجھے تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا۔“
حدیث(3)
”سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون کو موسیٰ (علیہما السلام) سے تھی، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔“
(بخاری صفحہ633 جلد2)
اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ:
”میرے بعد نبوت نہیں۔“
(صحیح مسلم صفحہ278 جلد2)
حضرت شا ہ ولی اللہ محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے کہ یہ حدیث متواتر ہے۔
حدیث(4)
”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیأ کیا کرتے تھے، جب کسی نبی کی وفات ہوتی تھی تو اس کی جگہ دوسرا نبی آتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفأ ہوں گے اور بہت ہوں گے۔“
(صحیح بخاری صفحہ491 جلد 1، صحیح مسلم صفحہ126 جلد2، مسند احمد صفحہ297 جلد 2)
حدیث(5)
”حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی کسی قسم کا کوئی نبی نہیں۔“
(ابوداؤد صفحہ 127 جلد 2،ترمذی صفحہ 45 جلد 2)
حدیث(6)
”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رسالت و نبوت ختم ہوچکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔“
(ترمذی صفحہ51 جلد2، مسند احمد صفحہ267 جلد3)
حدیث(7)
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم سب کے بعد آئے اور قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے، صرف اتنا ہوا کہ ان کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی۔“
(صحیح بخاری صفحہ120 جلد1، صحیح مسلم صفحہ282 جلد1)
حدیث(8)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوتے۔
(ترمذی صفحہ209 جلد2)
حدیث(9)
”حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ میرے چند نام ہیں: میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی (مٹانے والا) ہوں کہ میرے ذریعے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائیں گے اور میں حاشر (جمع کرنے والا) ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے اور میں عاقب (سب کے بعد آنے والا) ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔“
(متفق علیہ، مشکوۃصفحہ515)
حدیث(10)
متعدد احادیث میں یہ مضمون آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:”بعثت أنا والساعۃ کھاتین“مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے۔
(مسلم صفحہ 406 جلد 2)
ختم نبوت کی تحریکیں

متحدہ ہندوستان میں انگریز اپنے جوروستم اور استبدادی حربوں سے جب مسلمانوں کے قلوب کو مغلوب نہ کرسکا تو اس نے ایک کمیشن قائم کیا جس نے پورے ہندوستان کا سروے کیا اورواپس جا کر برطانوی پارلیمنٹ میں رپورٹ پیش کی کہ مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہادمٹانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایسے شخص سے نبوت کا دعویٰ کرایا جائے جو جہاد کو حرام اور انگریز کی اطاعت کو مسلمانوں پر اولوالامر کی حیثیت سے فرض قرار دے۔

ان دنوں مرزا غلام احمد قادیانی سیالکوٹ ڈی سی آفس میں معمولی درجہ کاکلرک تھا۔ اردو، عربی اور فارسی اپنے گھر میں پڑھی تھی۔ مختاری کا امتحان دیا مگر ناکام ہوگیا۔ غرضیکہ اس کی تعلیم دینی و دنیاوی دونوں اعتبار سے ناقص تھی۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے انگریزی ڈپٹی کمشنر کے توسط سے مسیحی مشن کے ایک اہم اور ذمہ دار شخص نے اس سے ڈی سی آفس میں ملاقات کی۔ گویا یہ انٹرویو تھا مسیحی مشن کااور ساتھ ہی یہ فرد انگلینڈ روانہ ہوگیااور مرزا قادیانی ملازمت چھوڑکر قادیان پہنچ گیا۔ با پ نے کہا کہ نوکری کی فکرکرو، جواب دیا کہ میں نوکر ہوگیا ہوں اور پھر بغیر مرسل کے پتہ کے منی آرڈر ملنے شروع ہوگئے۔ مرزا قادیانی نے مذہبی اختلافات کو ہوا دی۔ بحث و مباحثہ، اشتہار بازی شروع کردی۔ یہ تمام تر تفصیل مرزائی کتب میں موجود ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کام کے لئے برطانوی سامراج نے مرزا قادیانی کا کیوں انتخاب کیا۔ اس کا جواب خود مرزائی لٹریچر میں موجود ہے کہ مرزا قادیانی کا خاندان جدی پشتی انگریز کا نمک خوار خوشامدی اور مسلمانوں کا غدار تھا۔ مرزا قادیانی کے والدنے 1857ء کی جنگ آزادی میں برطانوی سامراج کو پچاس گھوڑے بمعہ سازو سامان مہیاکیے اور یوں مسلمانوں کے قتل عام سے اپنے ہاتھ رنگین کر کے انگریز سے انعام میں جائیداد حاصل کی۔ مرزا غلام احمد لکھتا ہے کہ میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکار میں مصروف رہا۔ ستارہ قیصریہ صفحہ 4 میں اپنے بارے میں لکھتا ہے کہ میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید و حمایت میں گذرا اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کیے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھرسکتی ہیں (تریا ق القلوب صفحہ25)۔غرضیکہ مرزا قادیانی کے گوشت پوست میں انگریز کی وفاداری اور مسلمانوں سے غداری رچی بسی تھی۔ یہی وہ وجہ ہے کہ اس مقصد کے لئے انگریز کی نظر انتخاب مرزا قادیانی پر پڑی اور اس کی خدمات حاصل کی گئیں۔جن حضرات کی مرزائیت کے لٹریچر پر نظرہے وہ جانتے ہیں کہ مرزا قادیانی کی ہر بات میں تضاد ہے لیکن حرمت جہاد اور فرضیت اطاعت انگریز ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اس میں مرزا قادیانی کی کبھی دورائیں نہیں ہوئیں کیونکہ یہ اس کا بنیادی مقصد اور غرض و غایت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو گورنمنٹ برطانیہ کا خود کاشتہ پودا قرار دیا۔ سرسید احمد خان مرحوم کی روایت جو ان کے مشہور مجلہ تہذیب الاخلاق میں چھپ چکی ہے کہ خود سرسید احمد خان سے انگریز وائسرائے ہند نے مرزا قادیانی کی امداد و اعانت کرنے کا کہا۔ بقول ان کے انہوں نے نہ صرف رد کردیا بلکہ اس منصوبہ کا راز افشاکردیا جس کے نتیجہ میں انگریز وائسرائے سرسید احمد خاں سے ناراض ہوگئے۔ مرزا قادیانی کے دعویٰ جات پر نظر ڈالیے۔ اس نے بتدریج خادم اسلام، مبلغ اسلام، مجدد، مہدی، مثیل مسیح، ظلی نبی، مستقل نبی، انبیاء سے افضل حتیٰ کہ خدائی تک کا دعویٰ کیا۔ یہ سب کچھ ایک طے شدہ منصوبہ، گہری چال اور خطر ناک سازش کے تحت کیا۔ قطب عالم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے نور ایمانی اور بصیرت وجدانی سے مرزا قادیانی کے دعویٰ سے بہت پہلے پنجاب کے معروف روحانی بزرگ حضرت مولانا پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃاللہ علیہ سے حجاز مقدس میں ارشاد فرمایا کہ پنجاب میں ایک فتنہ اٹھنے والا ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کے خلاف آپ سے کام لیں گے۔ بیعت و خلافت سے سرفراز فرمایااور اس فتنہ کے خلاف کام کرنے کی تلقین فرمائی۔
ردقادیانیت کے سلسلہ میں امت محمدیہ کے جن خوش نصیب و خوش بخت حضرات نے بڑی تندہی اورجانفشانی سے کام کیا۔ ان میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمدحسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ، جناب مولانا قاضی حمد سلیمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری رحمۃ اللہ علیہ، حصرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ،پروفیسر محمد الیاس برنی رحمۃ اللہ علیہ،علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا ظفر علی خان رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مظہر علی اظہر رحمۃ اللہ علیہ، حافظ کفایت حسین رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا پیرجماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔

علمائے لدھیانہ نے مرزا قادیانی کی گستاخ و بے باک طبیعت کو اس کی ابتدائی تحریروں میں دیکھ کر اس کے خلاف کفر کا فتویٰ سب سے پہلے دیا تھا۔ ان حضرات کاخدشہ صحیح ثابت ہوا اور آگے چل کر پوری امت نے علمائے لدھیانہ کے فتویٰ کی تصدیق و توثیق کی۔غرضیکہ پوری امت کی اجتماعی جدوجہد سے مرزائیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کی کوشش کی گئی یہی وجہ ہے کہ مرزا قادیانی نے بھی اپنی تصانیف میں مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ،مولانا سید علی الحائری رحمۃ اللہ علیہ سمیت امت کے تمام طبقات کو اپنے سب و شتم کانشانہ بنایاکیونکہ یہی وہ حضرات تھے جنہوں نے تحریر و تقریر و مناظرہ و مباہلہ کے میدان میں مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کوچاروں شانے چت کیا اور یوں اپنے فرض کی تکمیل کر کے پوری امت کی طرف سے شکریہ کے مستحق قرارپائے۔


مقدمہ بہاولپور:

تحصیل احمد پور شرقیہ ریاست بہاولپور میں ایک شخص مسمی عبدالرزاق مرزائی ہو کر مرتد ہوگیا اس کی منکوحہ غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش نے سن بلوغ کو پہنچ کر 24جولائی 1926ء کو فسخ نکاح کا دعویٰ احمد پور شرقیہ کی مقامی عدالت میں دائر کردیا جو 1931ء تک ابتدائی مراحل طے کر کے پھر 1932ء میں ڈسٹرکٹ جج بہاول پور کی عدالت میں بغرض شرعی تحقیق واپس ہوا۔ آخر کار 7 فروری 1935ء کو فیصلہ بحق مدعیہ صادر ہوا۔ بہاولپور ایک اسلامی ریاست تھی، اس کے والی نواب جناب صادق محمد خاں خامس عباسی مرحوم ایک سچے مسلمان اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ بہاولپور کے معروف بزرگ کے عقیدت مند تھے۔ خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کے تمام خلفاء کو اس مقدمہ میں گہری دلچسپی تھی۔ اس وقت جامعہ عباسیہ بہاولپور کے شیخ الجامعہ مولانا غلا م محمد گھوٹوی مرحوم تھے جو حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کے ارادت مند تھے۔ لیکن اس مقدمہ کی پیروی اور امت محمدیہ کی طرف سے نمائندگی کے لئے سب کی نگاہ انتخاب دیو بند کے فرزند شیخ الاسلام حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ پر پڑی، مولانا غلام محمد صاحب کی دعوت پر اپنے تمام تر پروگرام منسوخ کر کے مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ بہاولپور تشریف لائے تو فرمایا کہ جب یہاں سے بلاوا آیا تو میں ڈابھیل کے لے بارکاب تھا مگر میں یہ سوچ کر یہاں چلا آیا کہ ہمارا نامہ اعمال تو سیاہ ہے ہی شاید یہی بات مغفرت کا سبب بن جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جانبدار بن کر بہاولپور آیا تھا، اگر ہم ختم نبوت کی حفاظت کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا بھی ہم سے اچھا ہے۔ ان کے تشریف لانے سے پورے ہندوستان کی توجہ اس مقدمہ کی طرف مبذول ہوگئی، بہاولپور میں علم کی موسم بہار شروع ہوگئی۔ اس سے مرزائیت کو بڑی پریشانی لاحق ہوئی۔ انہوں نے بھی ان حضرات علماء کی آ ہنی گرفت اور احتسابی شکنجے سے بچنے کیلئے ہزاروں جتن کئے۔ مولانا غلام محمد گھوٹوی، مولانا محمد حسین کولوتارڑوی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری، مولانا نجم الدین، مولانا ابو الوفاشاہ جہان پوری اور مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم و شکراللہ سعیہم کے ایمان افروز اور کفر شکن بیانات ہوئے۔ مرزائیت بوکھلا اٹھی۔ ان دنوں مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ پر اللہ رب العزت کے جلال اور حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وبارک وسلم کے جمال کا خاص پر تو تھا۔ وہ جلال و جمال کا حسین امتزاج تھے، جمال میں آکر قرآن و سنت کے دلائل دیتے تو عدالت کے درودیوارجھوم اٹھتے اور جلال میں آکر مرزائیت کو للکارتے تو کفر کے ا یوانوں میں زلزلہ طاری ہوجاتا، مولانا ابوالوفا شاہ جہان پوری نے اس مقدمہ میں مختار مدعیہ کے طور پر کام کیا۔ایک دن عدالت میں مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے جلال الدین شمس مرزائی کو للکار کر فرمایا کہ اگر چاہو تو میں عدالت میں یہیں کھڑے ہو کر دکھاسکتا ہوں کہ مرزا قادیانی جہنم میں جل رہا ہے مرزائی کانپ اٹھے۔ مسلمانوں کے چہروں پر بشاشت چھاگئی اور اہل دل نے گواہی دی کہ عدالت میں انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نہیں بلکہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا وکیل اور نمائندہ بول رہا ہے۔
علمائے کرام کے بیانات مکمل ہوئے، نواب صاحب مرحوم پر گورنمنٹ برطانیہ کا دباؤ بڑھا۔ اس سلسلہ میں مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھری مرحوم نے راقم الحروف سے بیان کیا کہ خضرحیات ٹوانہ کے والد نواب سر عمر حیات ٹوانہ لندن گئے ہوئے تھے۔ نواب آف بہاولپور مرحوم بھی گرمیاں اکثر لندن گزارا کرتے تھے۔ نواب مرحوم سر عمر حیات ٹوانہ لندن میں ملے اور مشورہ طلب کیا کہ انگریز گورنمنٹ کا مجھ پر دباؤ ہے کہ ریاست بہاولپور سے اس مقدمہ کو ختم کرادیں تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ سر عمر حیات ٹوانہ نے کہا کہ ہم انگریز کے وفادار ضرور ہیں مگر اپنا دین، ایمان اور عشق رسالت مآب کا توان سے سودا نہیں کیا، آپ ڈٹ جائیں اور ان سے کہیں کہ عدالت جو چاہے فیصلہ کرے میں حق و انصاف کے سلسلہ میں اس پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہتا۔ چنانچہ مولانا محمد علی جالندھری نے یہ واقعہ بیان کر کے ارشاد فرمایا کہ ان دونوں کی نجات کے لئے اتنی بات کافی ہے۔ جناب محمد اکبر جج مرحوم کو ترغیب و تحریص کے دام تزویر میں پھنسانے کی مرزائیوں نے کوشش کی لیکن ان کی تمام تدابیر غلط ثابت ہوئیں، مولانا سید محمد انور شاہ کشمیر ی رحمۃ اللہ علیہ اس فیصلہ کے لیے اتنے بے تاب تھے کہ بیانات کی تکمیل کے بعد جب بہاولپور سے جانے لگے تو مولانا محمد صادق مرحوم سے فرمایا کہ اگر زندہ رہا تو فیصلہ خود سن لوں گا اور اگر فوت ہوجاؤں تو میری قبر پر آکر یہ فیصلہ سنا دیا جائے۔ چنانچہ مولانا محمد صادق نے آپ کی وصیت کو پورا کیا۔ آپ نے آخری ایام علالت میں دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ و طلبہ اور دیگر بہت سے علماء کے مجمع میں تقریر فرمائی تھی، جس میں نہایت درد مندی و دل سوزی سے فرمایا تھا۔ وہ تمام حضرات جن کو مجھ سے بلا واسطہ یا بالواسطہ تلمذ کا تعلق ہے اور جن پر میرا حق ہے کہ میں ان کو خصوصی وصیت اور تاکید کرتا ہوں کہ وہ عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت و پاسبانی اورفتنہ قادیانیت کے قلع قمع کو اپنا خصوصی کام بنائیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی شفاعت فرمائیں، ان کو لازم ہے کہ ختم نبوت کی پاسبانی کا کام کریں۔

یہ مقدمہ حق و باطل کا عظیم معرکہ تھا۔ جب7 فروری 1935ء کو فیصلہ صادر ہوا تو مرزائیت کے صحیح خدوخال آشکارا ہوگئے۔ بلاشبہ پوری امت جناب محمدا کبر خان جج صاحب مرحوم کی مرہون منت ہے کہ انہوں نے کمال عدل و انصاف محنت و عرق ریزی سے ایسافیصلہ لکھا کہ اس کا ایک ایک حرف قادیانیت کے تابوت میں کیل ثابت ہوا۔ قادیانیوں نے اپنے نام نہاد خلیفہ مرزا بشیر کی سربراہی میں سرظفراللہ مرتد سمیت جمع ہو کر اس فیصلہ کے خلاف اپیل کرنے کی سوچ و بچار کی لیکن آخر کار اس نتیجہ پر پہنچے کہ فیصلہ اتنی مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر صادر ہوا کہ اپیل بھی ہمارے خلاف جائے گی۔ اللہ رب العزت کی قدرت کے قربان جائیں، کفر ہار گیا، اسلام جیت گیا۔ ایک دفعہ پھرجاء الحق وزھق الباطل کی عملی تفسیر اس فیصلہ کی شکل میں امت کے سامنے آگئی اور مرزائی فبھت الذی کفر کا مصداق ہوگئے، اس تاریخ سازفیصلہ نے چار دانگ عالم میں تہلکہ مچا دیا۔مرزائیوں کی ساکھ روز بروز گرنا شروع ہوگئی۔
تحریک ختم نبوت 1953ء
ہندوستا ن تقسیم ہوا، خدادداد مملکت پاکستان معرض وجود میں آئی، بدنصیبی سے اسلامی مملکت پاکستان کا وزیر خارجہ چودھری سر ظفراللہ خان قادیانی کو بنایا گیا۔ اس نے مرزائیت کے جنازہ کو اپنی وزرات کے کندھوں پر لاد کر اندرون و بیرون ملک اسے متعارف کرانے کی کوشش تیز سے تیز ترکردی، ان حالات میں حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ، امیر کاروان احرار کی رگ حمیت اور حسینی خون نے جوش مارا، پوری امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا، مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ، مجاہد اسلام مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ آپ کا پیغام لے کر ملک عزیز کی نامور دینی شخصیت اور ممتاز عالم دین اسلام مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر گئے اور اس تحریک کی قیادت کا فریضہ انہوں نے ادا کیا۔ مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ، مولانا خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا پیر غلام محی الدین گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالحامد بدایونی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا پیر سر سینہ شریف رحمۃ اللہ علیہ، آغا شورش کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ، ماسٹر تاجدین انصاری رحمۃ اللہ علیہ، شیخ حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ، مولانا صاحبزادہ سید فیض الحسن رحمۃ اللہ علیہ، مولانا اختر علی خاں رحمۃ اللہ علیہ، غرضیکہ کراچی سے لے کر ڈھاکہ تک کے تمام مسلمانوں نے اپنی مشترکہ آئینی جدوجہد کا آغاز کیا۔ بلاشبہ برصغیر کی یہ عظیم ترین تحریک تھی۔ جس میں دس ہزار مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ایک لاکھ مسلمانوں نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ دس لاکھ مسلمان اس تحریک سے متاثر ہوئے۔ ہر چند کہ اس تحریک کو مرزائی اور مرزائی نواز اوباشوں نے سنگینوں کی سختی سے دبانے کی کوشش کی مگر مسلمانوں نے اپنی ایمانی جذبہ سے ختم نبوت کے اس معرکہ کو اس طرح سر کیا کہ مرزائیت کا کفر کھل کر پوری دنیا کے سامنے آگیا۔ تحریک کے ضمن میں انکوائری کمیشن نے رپورٹ مرتب کرنا شروع کی۔ عدالتی کاروائی میں حصہ لینے کی غرض سے علماء اور وکلا کی تیاری، مرزائیت کی کتب کے اصل حوالہ جات کو مرتب کرنابڑاکٹھن مرحلہ تھا اور ادھر حکومت نے اتنا خوف و ہراس پھیلا رکھا تھاکہ تحریک کے رہنماؤں کو لاہور میں کوئی آدمی رہائش تک دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ جناب عبدالحکیم احمد سیفی نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ مجاز خانقاہ سراجیہ نے اپنی عمارت 7 بیڈن روڈ لاہور کو تحریک کے رہنماؤں کے لیے وقف کردیا۔ تمام تر مصلحتوں سے بالائے طاق ہو کر ختم نبوت کے عظیم مقصد کے لیے ان کے ایثار کا نتیجہ تھا کہ مولانا محمد حیات رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالرحیم اشعر رحمۃ اللہ علیہ اور رہائی کے بعد مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا قاضی احسان احمدشجاع آبادی رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے رہنماؤں نے آپ کے مکان پر انکوائری کے دوران قیام کیا اور مکمل تیاری کی۔ ان ایام میں شیخ المشائخ قبلہ حضرت مولانا محمد عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ بھی وہیں قیام پذیر رہے اور تمام کام کی نگرانی فرماتے رہے۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت کے بعد مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے گرامی قدر رفقاء مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالرحمن میانوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد شریف بہاولپوری رحمۃ اللہ علیہ، سائیں محمد حیات رحمۃ اللہ علیہ اور مرزا غلام نبی جانباز رحمۃ اللہ علیہ کا یہ عظیم کارنامہ تھا کہ انہوں نے الیکشنی سیاست سے کنارہ کش ہو کر خالصتاً دینی و مذہبی بنیاد پر مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ، چوہدری افضل حق رحمۃ اللہ علیہ اور خود حضرت امیر شریعت رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے گرامی قدر رفقاء نے مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے قادیانیت کو جو چرکے لگائے وہ تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ قادیان میں کانفرنس کر کے چور کا اس کے گھر تک تعاقب کیا۔ نیز مولانا ظفر علی خاں رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ محمداقبال رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ ردِّمرزائیت میں غیر فانی کردار ادا کیا۔ مجلس احرار اسلام کی کامیاب گرفت سے مرزائیت بوکھلا اٹھی، مجلس احراراسلام پر مسجد شہید گنج کا ملبہ گرا کر اسے دفن کرنے کی کوشش کی گئی۔حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ صدر مجلس احرار نے ایک موقعہ پر ارشادفرمایا کہ تحریک مسجد شہید گنج کے سلسلہ میں پورے ملک سے دو اکابر اولیاء اللہ ایک حضرت اقدس مولانا ابوالسعد احمد خاں رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ نے ہماری رہنمائی کی اور تحریک سے کنارہ کش رہنے کا حکم فرمایا، حضرت اقدس ابوالسعد احمد خاں رحمۃ اللہ علیہ بانی خانقاہ سراجیہ نے یہ پیغام بھجوایا تھاکہ مجلس احرار تحریک مسجد شہید گنج سے علیحدہ رہے اور مرزائیت کی تردیدکا کام رکنے نہ پائے اسے جاری رکھا جائے اس لیے اگر اسلام باقی رہے گا تو مسجدیں باقی رہیں گی، اگر اسلام باقی نہ رہا تو مسجدوں کو باقی کون رہنے دے گا؟
مسجد شہید گنج کے ملبہ کے نیچے مجلس احرار کو دفن کرنے والے انگریز اور قادیانی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس لیے کہ انگریز کو ملک چھوڑنا پڑا جبکہ مرزائیت کی تردید کے لئے مستقل ایک جماعت مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے نام سے تشکیل پا کر قادیانیت کو ناکوں چنے چبوارہی ہے۔ ان حضرات نے سیاست سے علیحدگی کا محض اس لئے اعلان کیا کہ کسی کو یہ کہنے کا موقعہ نہ ملے کہ مرزائیت کی تردید اور ختم نبوت کی ترویج کے سلسلہ میں ان کے کوئی سیاسی اغراض ہیں۔ چنانچہ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان نے مرزائیت کے خلاف ایسا احتسابی شکنجہ تیار کیا کہ مرزائیت مناظرہ، مباہلہ، تحریر و تقریر اور عوامی جلسوں میں شکست کھاگئی۔ جگہ جگہ ختم نبوت کے دفاتر قائم ہونے لگے، مولانا لال حسین اختررحمۃاللہ علیہ نے برطانیہ سے آسٹریلیا تک قادیانیت کا تعاقب کیا۔ مرزائیت نے عوامی محاذ ترک کرکے حکومتی عہدوں اور سرکاری دفاتر میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش و کاوش کی اور وہ انقلاب کے ذریعہ اقتدار کے خواب دیکھنے لگے۔

تحریک ختم نبوت1974ء

1970ء کے الیکشن میں چند سیٹوں پر مرزائی منتخب ہوگئے۔ اقتدار کے نشہ اور ایک سیاسی جماعت سے سیاسی وابستگی نے انہیں دیوانہ کردیا۔ وہ حالات کو اپنے لیے سازگار پا کر انقلاب کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کی سکیمیں بنانے لگے۔ قادیانی جرنیلوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کردیں۔ اس نشہ میں دھت ہو کر انہوں نے 29مئی 1974ء کو ربوہ ریلوے سٹیشن پر چناب ایکسپریس کے ذریعہ سفر کرنے والے ملتان نشتر میڈیکل کالج کے طلباء پر قاتلانہ حملہ کیا۔ جس کے نتیجہ میں تحریک چلی۔ مولاناسید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے امیر تھے۔ ان کی دعوت پر امت کے تمام طبقات جمع ہوئے۔ آل پارٹیز مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان تشکیل پائی۔ جس کے سربراہ حضرت شیخ بنوری رحمۃاللہ علیہ قرار پائے۔ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش نصیبی کہ اس وقت قومی اسمبلی میں تمام اپوزیشن متحد تھی۔ چنانچہ اپوزیشن پوری کی پوری مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان میں شریک ہوگئی۔
رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا اعجاز ملاحظہ ہو کہ مذہبی و سیاسی جماعتوں نے متحد ہو کر ایک ہی نعرہ لگایا کہ مرزائیت کو غیر مسلم قرارد یا جائے۔ اس وقت قومی اسمبلی میں مفکر اسلام مولانا مفتی محمودرحمۃ اللہ علیہ، مولاناغلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالحق، پروفیسر غفور احمد، مولانا عبدالمطفی ازہری، مولانا عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے رفقا نے ختم نبوت کی وکالت کی۔ متفقہ طور پر اپوزیشن کی طرف سے مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ نے مرزائیوں کے خلاف قرار داد پیش کی اور برسر اقتدار جماعت پیپلز پارٹی یعنی حکومت کی طرف سے دوسری قرار داد جناب پیر عبدالحفیظ پیرزادہ نے پیش کی جو ان دنوں وزیر قانون تھے، قومی اسمبلی میں مرزائیت پربحث شرو ع ہوگئی۔ پورے ملک میں مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ، نوابزادہ نصراللہ خان رحمۃ اللہ علیہ، آغا شورش کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ، علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالقادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ، مفتی زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ، مولانا تاج محمود رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد شریف جالندھری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالستار خان نیازی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا صاحبزادہ فضل رسول حیدر، مولانا صاحبزادہ افتخار الحسن، سید مظفر علی شا ہ رحمۃ اللہ علیہ، مولانا علی غضنفر کراروی، مولانا عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ، پیر شریف، حضرت مولانا محمد شاہ امروٹی رحمۃ اللہ علیہ، غرضیکہ چاروں صوبوں کے تمام مکاتب فکر نے تحریک کے الاؤ کو ایندھن مہیا کیا۔ اخبارات و رسائل نے تحریک کی آواز کوملک گیر بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو دباؤ بڑھتا گیا۔ ادھر قومی اسمبلی میں قادیانی و لاہوری گروپوں کے سربراہوں نے اپنا اپنا موقف پیش کیا۔ ان کا جواب اور امت مسلمہ کا موقف مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں مولانا محمد حیات رحمۃ اللہ علیہ، مولانا سمیع الحق، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور مولانا سید انور حسین نفیس رقم نے مرتب کیا۔ اسے قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے چودھری ظہور الٰہی کی تجویز اور دیگر تمام حضرات کی تائید پر قرعہ فال مولانا مفتی محمود رحمۃا للہ علیہ کے نام نکلا۔ جس وقت انہوں نے یہ محضر نامہ پڑھا، قادیانیت کی حقیقت کھل کراسمبلی کے ارکان کے سامنے آگئی۔ مرزائیت پر اوس پڑگئی۔ نوے دن کی شب و روز مسلسل محنت و کاوش کے بعد جناب ذوالفقارعلی بھٹو کے عہد اقتدار میں متفقہ طور پر 7 ستمبر 1974ء کو نیشنل اسمبلی آف پاکستان نے عبدالحفیظ پیرزادہ کی پیش کردہ قرار داد کومنظور کیا اور مرزائی آئینی طور غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔ الحمد اللہ رب العالمین حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ کما یحب ربنا ویرضی


تحریک ختم نبوت1984ء

17 فروری 1983ء کومولانا محمد اسلم قریشی مبلغ تحفظ ختم نبوت سیالکوٹ کو مرزائی سربراہ مرزا طاہر کے حکم پر مرزائیوں نے اغوا کیا۔ جس کے ردعمل میں پھر تحریک منظم ہوئی۔ شیخ الاسلام مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد اس وقت تک مجلس تحفظ ختم نبوت کی امارت کا بوجھ میرے ناتواں کندھوں پر ہے۔ اس لیے آل پارٹیز مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان کی امارت بھی فقیر کے حصہ میں آئی۔ اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ فضل ہے جس سے جناب محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے تحفظ کے سلسلہ میں امت محمدیہ کے تمام طبقات کو اتفاق و اتحاد نصیب کر کے ایک لڑی میں پرودیا اور یوں 26 اپریل 1984ء کو امتناع قادیانیت آرڈیننس صدر مملکت جناب جنرل محمد ضیاء الحق صاحب کے ہاتھوں جاری ہوا۔ قادیانیت کے خلاف آئینی طور پر جتنا ہونا چاہیے تھا اتنا نہیں ہوا لیکن جتنا ہوا اتنا آج تک کبھی نہیں ہوا تھا۔ آج اللہ رب العزت کا فضل و کرم ہے کہ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت بن چکی ہے اور چار دانگ عالم میں رحمۃا للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے پھریرے کو بلند کرنے کی سعادتوں سے بہرہ ور ہورہی ہے۔ دنیا کے تمام براعظموں میں ختم نبوت کا کام وسیع سے وسیع ترہورہا ہے۔


قادیانیت

مرزا قادیانی کے بارے میں جاننا کیوں ضروری ہے...؟؟؟
جس طرح یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مذہب کی بنیاد بانی مذہب کے عقائد و نظریات پر ہوتی ہے۔ ایسے ہی یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ ہر مذہب کا بانی اپنے مذہب کے لیے بطور آئینہ ہوتا ہے اور کسی بھی مدعی الہام یا ماموریت کو جانچنے کے لیے سب سے بہترین اور آسان راستہ اُس کا کردار ہی ہے اس لیے مرزا قادیانی کو جانچنے اور قادیانیت کو سمجھنے کے لیے ’’ مرزا غلام احمد قادیانی ‘‘ کی شخصیت کا تعارف اسکے حالات زندگی اور خاندانی پس منظر سے واقفیت انتہائی ضروری ہے لیکن قادیانی طبقہ مرزا قادیانی کی شخصیت و کردار پر گفتگو کرنے سے اس طرح گھبراتا ہے جیسے شکار تیر سے اور امت مرزائیہ کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح مرزا قادیانی کی شخصیت زیر بحث نہ آئے کیونکہ قادیانی کتب سے مرزا قادیانی کی جو صورت نمایاں ہوتی ہے وہ بڑی بھیانک ہے اس سیکشن میں مرزا قادیانی کی شخصیت و کردار کے حوالے سے مختلف پہلوؤں کو نوک قلم لایا گیا ہے جس سے یہ بات نصف النہار کے سورج سے زیادہ روشن ہوتی ہے کہ ایسے کردار کا حامل نبوت و رسالت تو کیا روحانیت کے کسی معمولی درجے پر بھی فائز نہیں ہوسکتا بلکہ ایسے شخص کو شریف انسان کہنا شرافت کو گالی دینا ہے۔

مرزا قادیانی کا نام و نسب:
مرزا قادیانی خود اپنا تعارف کرواتے ہوئے لکھتا ہے۔
اب میرے سوانح اس طرح پر ہیں نام غلام احمد،میرے والد کا نام غلام مرتضیٰ ، دادا کا نام عطا محمد تھا۔​

(خزائن ج ۲۲ ص ۱۳۷)
اپنی قوم کے بارے میں لکھتا ہے کہ ہماری قوم مغل برلاس ہے
اپنی تاریخ پیدائش کے بارے میں لکھتا ہے کہ میری پیدائش ۱۸۳۹ یا ۱۸۴۰ میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی اور میں ۱۸۵۷ میں سولہ یا سترہ برس کا تھا
(خزائن ج ۱۳ ص ۱۷۷)
پیدائش کی کیفیت:
مرزا قادیانی نے اپنی پیدائش کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے جہاں اپنی غیرت کی دھجیاں بکھیری ہیں وہاں اپنی ماں کی عصمت کی چادر کو بھی تار تار کیا ہے ملاحظہ فرمائیں میں اور میری بہن رحمت جڑواں پیدا ہوئے پہلے لڑکی پیٹ سے نکلی اور اسکے بعد میں نکلا تھا اور میرا سر اُس کے پاؤں میں پھنسا ہوا تھا۔
(خزائن ج ۱۵ ص ۴۷۹)
قارئین کرام آپ کو دنیا میں ایسا بے حیا نہ ملے گا جو نکلی ، نکلا جیسے الفاظ کے ذریعے اپنی ولادت کو بیان کرے پھر طرفہ یہ کہ بہن کی ٹانگوں میں ہو۔ اور مرزا کا یہ کہنا کہ پیٹ سے نکلی اس بات کی وضاحت کی کیا ضرورت تھی کیا پیٹ کے علاوہ بھی کسی حصے میں بچہ ہوتا ہے اور ہمارا مرزائیوں سے یہ سوال ہے کہ مرزا قادیانی کو اپنی پیدائش کی کیفیت کا علم کیسے ہوا ؟



مرزا قادیانی کا تعارف


انگریز کا وفادار خاندان

مرزا قادیانی انگریز کا خود کاشتہ تھا اور اس کا خاندان انگریز کا پٹھو تھا۔ مرزا قادیانی اپنے خاندان کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتا ہے:
’’میرے والد صاحب میرا خاندان ابتداء سے سرکارِ انگریز کے بدل و جان، ہوا خواہ اور وفادار ہے اور گورنمنٹ عالیہ انگریزی کے معزز افسروں نے مان لیا ہے کہ یہ خاندان کمال درجہ پر خیرخواہ سرکارِ انگریزی ہے۔

(مجموعہ اشتہارات ج۹، ۱۰) 
مرزا قادیانی کا بچپن

انبیاء کرام علیھم السلام کی جیسے جوانی پاک وصاف اور قابل اتباع ہوتی ہے ایسے ہی بچپن بھی عام بچوں سے جدا نہایت پر وقار اور ہر قسم کے لہو و لعب سے پاک ہوتا ہے لیکن قادیان کے اس بناوٹی نبی کے بچپن کے حالات گلی محلے کے عام آوارہ بچوں سے بھی گئے گزرے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔ 

بچپن کا نام

مرزا قادیانی کا لڑکا بشیر احمد ایم اے مرزا قادیانی کے بچپن کا نام ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ: مرزا قادیانی کا ابتدائی نام دسوندی تھا لیکن سندھی کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔

(سیرت المہدی حصہ اول ص ۳۶) 
چڑی مار

مرزا قادیانی کو بچپن میں شکار کا بھی شوق تھا لیکن شوق پورا کرنے کا انداز کیا تھا۔مرزا قادیانی کا لڑکا بشیر احمد ایم اے اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ہوشیار پور میں حضرت صاحب بچپن میں چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور چاقو نہیں ملتا تھا تو سرکنڈے سے ذبح کر لیتے تھے۔
(سیرت المہدی حصہ اول ص 36) 

چھپڑ کا تیراک

مرزا قادیانی بچپن میں تیرنے کا بھی دلدادہ تھا برسات میں جب قادیان کی ساری غلاظت بارشوں میں بہہ کر قادیان کے اردگرد جمع ہوجاتی تو مرزا قادیانی اس گندے پانی میں دیر تک تیرتا رہتا چنانچہ مرزا قادیانی کا لڑکا لکھتا ہے :
حضرت صاحب (مرزا قادیانی ) نے فرمایا کہ میں بچپن میں اتنا تیرتا تھا کہ ایک وقت میں ساری قادیان کے اردگرد تیر جاتا تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ برسات کے موسم میں قادیان کے اردگرد اتنا پانی جمع ہوتا ہے کہ قادیان ایک جزیرہ بن جاتا ہے۔

(سیرت المہدی حصہ اول ص ۲۷۶) 
نمک اور چینی

مرزا قادیانی کی طبیعت میں شروع ہی سے چوری کا مادہ تھا اس لئے بچگانہ قسم کی چوری کی عادت بچپن میں بھی تھی مرزا قادیانی کا لڑکا بشیر احمد لکھتا ہے :
حضرت صاحب فرماتے کہ ایک دفعہ بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ میں گھر آیا اور بغیر کسی کے پوچھنے کے ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کر منہ میں ڈال لی بس کیا تھا، میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ وہ بورا میٹھا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا۔ 

روٹی اور راکھ

مرزا قادیانی کے مزاج میں عام بچوں کی طرح ضد اور ہٹ دھرمی بھی تھی چنانچہ مرزا قادیانی کا لڑکا لکھتا ہے۔
ایک دفعہ بچپن میں حضرت صاحب نے اپنی والدہ سے روٹی کے ساتھ کچھ کھانے کو مانگا انہوں نے کوئی چیز شاید گڑ دیا کہ یہ لے لو ۔حضرت نے کہا یہ میں نہیں لیتا انہوں نے کوئی اورچیز بتائی تو حضرت نے پھر انکار کیا انہوں نے چڑ کر سختی سے کہا کہ جاؤ پھر راکھ سے کھا لو۔ حضرت صاحب روٹی پرراکھ ڈال کر بیٹھ گئے۔
(سیرت المہدی حصہ اول ص ۲۴۵) 
قارئین کرام! عقل اور فرمانبرداری دیکھئے جب والدہ نے اپنی پسند کی چیز رضا سے دی تو ضد اور انکار لیکن ناراضگی سے راکھ بھی لے لی۔
مرزا قادیانی کے بچپن کے چند گوشے آپ کے سامنے رکھے ہیں اس کے برعکس اولیاء اﷲ کے بچپن کو دیکھ لیں ان کا بچپن بھی علم و حکمت، تقویٰ و طہارت اور خدا خوفی سے بھرا ہوتا ہے اور ان کا بچپن ان کے روشن پاکیزہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے۔ 

ابتدائی تعلیم:

مرزا قادیانی نے قادیان ہی میں رہ کر متعدد اساتذہ سے تعلیم حاصل کی جس کی تفصیل خوداس کی زبانی حسب ذیل ہے:
’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا۔جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الہی تھا۔اور جب میری عمر تقریباً دس برس کی ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کیلئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدائے تعالی کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ’فضل‘ ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرَف کی بعض کتابیں او رکچھ قواعد نحو اِن سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ان کا نا م گل علی شاہ تھا ان کو بھی میرے والد نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کیلئے مقرر کیا تھا اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خداتعالی نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے۔‘‘

(کتاب البریہ بر حاشیہ۶۱ ۱تا۱۶۳۔روحانی خزائن ج ۱۳ ص ۱۷۹ تا ۱۸۱)
مرزا قادیانی کی جوانی
مشہور ہے کہ جوانی دیوانی ہوتی ہے اور جوش جوانی میں اکثر لوگ بے اعتدالیاں کر گزرتے ہیں لیکن جن لوگوں کے حق میں خدا کا مامور بننا مقدر ہو اُن کی جوانی اطاعت و فرمانبرداری، عبادت و ریاضیت، اخلاق و اوصاف، امانت و دیانت ، عقل و دانش غرض جملہ اخلاقی، علمی اور عملی محاسن کا مجموعہ ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس مرزا قادیانی کی جوانی لہو و لعب، فسق و فجور اور بددیانتی سے پر تھی چنانچہ مرزا قادیانی کا جوانی میں ملازمت اختیار کرنے کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے اور بہت سے اندرونی معاملات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
مرزا قادیانی کا لڑکا لکھتا ہے :
" بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانے میں حضرت صاحب (مرزا قادیانی) تمہارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام دین بھی چلا گیا جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو وہ آپ کو بہلا پھسلا کر اور دھوکہ دے کربجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر اُدھر پھراتا رہا جب آپ نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کرد یا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا اور حضرت مسیح موعود اس شرم سے گھر نہیں آئے اور چونکہ تمہارے دادا کا منشاء رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہوجائیں اس لیے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہوگئے۔( )
جب کہ مرزا قادیانی کا دوسرا لڑکا مرزا محمود سیالکوٹ ملازمت کاپس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
’’ اور ایسا ہوا کہ ان دنوں آپ گھر والوں کے طعنوں کی وجہ سے کچھ دنوں کے لیے قادیان سے باہر چلے گئے اور سیالکوٹ جا کر رہائش اختیار کر لی اور گزارے کے لیے ضلع کچہری میں ملازمت بھی کرلی۔
محترم قارئین ! مرزا قادیانی کی بیوی کے بیان کے مطابق مرزا امام دین نے مرزا قادیانی کو بہلایا پھسلایا اور پھر دھوکہ دے کر پنشن کی ساری رقم اُڑوا بھی دی انتہائی اہم سوال یہ ہے کہ اس وقت جب کہ مرزا قادیانی کی جوانی پورے شباب پر تھی اور مرزا قادیانی کا دعویٰ بھی ہے کہ مجھے ماں کے پیٹ میں نبوت ملی ہے تو ایسی حالت میں امام دین جیسے ایک دیہاتی کا بہلانا پھسلانا اور دھوکہ دینا کیا معنی رکھتا ہے۔
اور پھر مرزا قادیانی کاامام دین کے ساتھ ادھر ادھر پھرتے رہنا اور سارا مال بھی ادھر ادھر کے کاموں میں اڑا کر ضائع کر دینا پھر اسی شرمندگی کی وجہ سے گھر بھی نہ آنا‘‘ یہ تمام باتیں مرزا قادیانی کی عفت و پاک دامنی اور امانت و دیانت کو خوب واضح کرتی ہیں۔ بھلا جو شخص امانت کی رقم کو ادھر ادھر کے کاموں میں اڑا دے اور جسے آوارگی کی وجہ سے والدین طعنے دیتے ہوں اس سے اس تقویٰ اور نیک بختی کی امید کی جاسکتی ہے اور کیا ایسا شخص شریف آدمی کہلانے کے قابل ہے۔
دوران ملازمت مذہبی چھیڑ چھاڑ
مرزا قادیانی کی سیالکوٹ ملازمت کا زمانہ وہ ہے جب برصغیر پاک و ہند میں انگریزی حکومت قائم تھی جو مختلف طریقوں سے مسلمانوں کے ایمان کو کمزور کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی جس کے نتیجے میں جگہ جگہ عیسائی پادری عیسائیت کے پرچار میں مصروف تھے اسی وجہ سے وقتاً فوقتاً بحث مباحثے ہوتے رہتے۔ مرزا قادیانی کی بھی سیالکوٹ میں ملازمت کے دوران جب کچھ جان پہچان ہو گئی تو اس نے بھی مختلف مذاہب کے لوگوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی چنانچہ مرزا قادیانی کا لڑکا بشیر احمد ایم اے لکھتا ہے:
سیالکوٹ ملازمت کے دوران کبھی کبھی نصر اﷲ نامی مشن سکول کے عیسائی ہیڈ ماسٹر سے مرزا صاحب کی مذہبی بحث ہو جاتی تھی۔
(سیرت المہدی حصہ اول ص 256) 
لیکن مرزا قادیانی کو اکثر اس طرح کی گفتگو میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور یہی وہ زمانہ ہے جب مرزا قادیانی کی بعض یورپین مشنریوں اور عیسائی افسروں سے ملاقات ہوئی انہوں نے مرزا قادیانی کی دجالی صفات کو دیکھتے ہوئے اسے حکومت برطانیہ کا منظور نظر بننے کی پیش کش کی۔ سیرت مسیح موعود کے صفحہ 15پر برطانوی انٹیلی جنس سیالکوٹ مشن کے انچارج مسٹر ریوزنڈ مابٹلر سے مرزا کی ملاقات کا تذکرہ موجود ہے ۔۔۔.

مرزا قادیانی کا کردار

اسلامی تعلیمات مقدسہ میں نہ صرف زنا بلکہ اسباب زنا’’ جیسے غیر محرم کو چھونا ، خلوت کرنا اور ’’بد نظری کرنا وغیرہ کو بھی حرام قرار دیا گیاہے لیکن متنبی قادیان نے ان تمام اسلامی حدود کو توڑتے ہوئے اپنی خدمت کے لئے مختلف عورتوں کو مقرر کیا ہوا تھا چند عورتیں جو رات میں مرزا قادیانی کی خدمت پر مامور تھیں مندرجہ ذیل ہیں۔ 



اہلیہ محمد دین و بابو شاہ دین:

ایک زمانہ میں حضرت مسیح موعود کی رات کی خدمت میں، میں (رسول بی بی) منشیانی اہلیہ محمد دین اور اہلیہ بابوشاہ دین ہوتی تھیں۔

(سیرت المہدی جلد سوم ص ۲۱۳ طبع اول)
مائی بھانو:

ایک رات خوب سردی پڑتی تھی مائی بھانو لحاف کے اوپر سے حضرت صاحب کودباتی تھیں اسے پتہ ہی نہ چلا کہ وہ ٹانگیں نہیں بلکہ پلنگ کی پٹی دبا رہی ہے۔
(ملخصًا سیرت المہدی جلد سوم ص ۲۱۰ طبع اول ) 

زینت:

ڈاکٹر عبدالستار صاحب نے بیان کیا کہ میری لڑکی زینت تین ماہ کے قریب حضرت صاحب (مرزاقادیانی) کی خدمت میں رہی بسا اوقات ایساہوتا کہ نصف رات یا اس سے زیادہ اسے پنکھا ہلاتے گزر جاتی تھی آپ کئی دفعہ اپنا تبرک بھی اسے دیتے تھے ( بہت خوب جب فائدہ لینا ہے تو بدلہ تو دیناہی ہے ناقل)
( ملخصًا سیرت المہدی جلد سوم ۲۷۲۔۲۷۲) 

ڈاکٹرنی:

ڈاکٹر نور محمد صاحب لاہوری کی ایک بیوی ڈاکٹرنی کے نام سے مشہور تھی وہ مدتوں قادیان آ کر حضور کے مکان میں رہتی اور حضور کی خدمت کرتی تھی اس کے مرنے کے بعد مرزا صاحب نے اس کا دوپٹہ اپنے کمرے کی کھڑکی کی سلاخ سے بند ھوا دیا۔
(ملخصاً سیرت المہدی جلد سوم ص۱۲۶) 
مرزا قادیانی کی انہی حرکات کو دیکھتے ہوئے قادیان کے مفتی سے کسی نے سوال کیاکہ:۔
حضرت اقدس (مرزا قادیانی) غیر عورتوں سے ہاتھ پاؤں کیوں دبواتے ہیں ؟ توقادیان کے مفتی حکیم فضل دین قادیانی نے جواباً لکھا کہ
وہ بنی معصوم ہیں ان سے مس کرنا اور اختلاط منع نہیں بلکہ موجب رحمت و برکات ہے (یعنی تم بھی برکت کے حصول کے لئے اپنی عورتیں بھیجو……ناقل)
(اخبار الحکم جلد ۱۱ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۷ اپریل ۱۹۰۷) 
قارئین کرام ایک لمحہ کے لئے اگر قادیان کے مرزائی مفتی کی اس بات کو تسلیم بھی کر لیں تو بھی ہم قادیانیوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا قادیانی ذریت میں خدمت کے لئے مرد موجود نہ تھے جو مرزا قادیانی کی خدمت کر سکتے یہ عورتوں سے خدمت کروانا اور پھر خدمت بھی جسمانی طرفہ یہ کہ رات کی خلوت میں چہ معنی دارد۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں کسی غیر محرم سے مس کرنا تو درکنار خلوت کرنا بھی منع ہے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
الا لا رجل عند امراۃ طیب الا ان یکون ناکحٍ اور ذا محرم
(مسلم ج ۲ ص ۲۱۵) 
’’خبردار کوئی مرد بھی کسی عورت کے ساتھ خلوت نہ کرے مگر یہ کہ وہ نکاح کرنے والا ہو یا محرم‘‘
جبکہ مرزا قادیانی سے یہ عورتیں اس قدر بے تکلف تھیں کہ اس کے سامنے برہنہ ہونے میں بھی کوئی شرم محسوس نہ کرتی تھیں چنانچہ مرزا قادیانی کے مرید خاص مفتی صادق نے لکھا ہے کہ:
حضرت مرزا صاحب کے اندرون خانہ ایک نیم دیوانی عورت تھی ایک مرتبہ وہ کپڑے اتار کر مرزا قادیانی کے کمرے میں نہانے لگی حالانکہ مرزا صاحب کمرے میں موجود تھے۔
(ذکر حبیب ص ۳۸) 
مرزا قادیانی کاایک اور مرید خاص سراج الحق ایک واقعہ نقل کرتا ہے کہ۔
ایک عورت مرزا صاحب کے کمرے میں ننگی نہائی پھر اٹھ کر کبڑی کبڑی ٹیڑھی ٹیڑھی جا کر مرزا قادیانی کے پاس سے کپڑے اٹھا لائی۔
(تذکرہ المہدی ص ۳۵۵) 
اس کے علاوہ بھی مرزا قادیانی کی زندگی میں وہ تمام رنگینیاں اور عیب موجود تھے جو کسی آوارہ، بازاری اور بد کردارشخص میں پائے جاتے ہیں چند عادات ملاحظہ فرمائیں: 

شرابی:

مرزا قادیانی شراب بھی پیا کرتا تھا اپنے مرید حکیم محمد حسین قادیانی کو ایک خط میں لکھتا ہے:
محبی اخویم محمد حسین السلام علیکم ورحمتہ اﷲ و برکاتہ
اس وقت میاں یار محمد بھیجا جاتا ہے آپ اشیائے خریدنی خود خریدیں اور ایک بوتل ٹانک وائن کی پلومر کی دکان سے خریدیں مگر ٹانک وائن چاہئے اس کا لحاظ رہے باقی خیریت ہے۔
(خطوط امام بنام غلام ص ۵) 
قارئین کرام! ٹانک وائن ایک قسم کی طاقتور اور نشہ دینے والی شراب ہے جو ولائیت سے سربند بوتلوں میں آتی تھی اور اس زمانے میں اس کی قیمت ساڑھے پانچ روپے تھی۔
(سودائے مرزا ص 39 حاشیہ) 
مرزا قادیانی جس تاکید سے حکیم حسین کو ٹانک وائن کے خریدنے کا پابند کر رہا ہے کیا یہ مرزا قادیانی کے عادی شرابی اور تجربہ کار ہونے پر دلیل نہیں؟ 

افیمی:

مرزا قادیانی کو افیون کے استعمال کی بھی عادت تھی چنانچہ مرزا قادیانی کا لڑکا مرزا محمود لکھتا ہے:
حضرت مسیح موعود نے تریاق الٰہی دوا خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق بنائی اور اس کا ایک بڑا جز افیون تھا اور یہ دوا کسی قدر اور افیون کی زیادتی کے بعد حضرت خلیفہ اول حکیم نور الدین کو مسیح موعود چھ ماہ سے زائد عرصہ تک دیتے رہے اور خود بھی وقتاً فوقتاً مختلف امراض کے دوروں کے وقت استعمال کرتے رہے۔
(اخبار الفضل 19جولائی 1929) 

تماش بین:

مرزا قادیانی کو تھیٹر دیکھنے کا شوق بھی تھا جس کو مختلف حیلے بہانوں سے پورا کرتا تھا۔ مرزا قادیانی کا نام نہاد صحابی مفتی محمد صادق اپنا واقعہ بیان کرتا ہے کہ:
ایک شب دس بجے کے قریب میں تھیٹر میں چلا گیا جو مکان کے قریب ہی تھا اور تماشا ختم ہونے پر دو بجے رات کو واپس آیا، صبح منشی ظفر احمد صاحب نے میری عدم موجودگی میں حضرت مسیح موعود کے پاس میری شکایت کی کہ مفتی صاحب رات کو تھیٹر چلے گئے تھے، حضرت مسیح موعود نے فرمایا ایک دفعہ ہم بھی گئے تھے۔
(ذکر حبیب ص 18) 
اس دین کے کیا کہنے جس کا نبی بھی تھیٹر میں اور صحابی بھی۔ 

گندہ شاعر:

مرزا قادیانی پر شاعری کا بھوت بھی سوار تھا لیکن اس کی طبیعت کے عین مطابق اس کی شاعری بھی حیا سوز اور فحاشی کا مرکز تھی۔ مرزا قادیانی کے عارفانہ کلام میں سے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
چپکے چپکے حرام کروانا آریوں کا حصول بھاری ہے
نام اولاد کے حصول کا ہے ساری شہوت کی بے قراری ہے
بیٹا بیٹا پکارتی ہے غلط یار کی اس آہ و زاری ہے
دس سے کروا چکی ہے زنا لیکن پاک دامن ابھی بے چاری ہے
زن بیگانہ پر یہ شیدا ہیں جس کو دیکھو وہی شکاری ہے
مرزائی امت کو چاہیئے کہ صبح سویرے نہار منہ گھر کی مستورات کو جمع کر کے اپنے نبی کا یہ عارفانہ کلام پڑھ کر سنایا کریں۔
لٹیرا: مرزا قادیانی کی ساری جدوجہد حصول مال و زر کے لئے تھی جس کے لئے مختلف دینی خدمات کے بہانے لوگوں سے مال بٹورنا مرزا قادیانی کا خاص مشغلہ تھا۔ حتی کہ دعا کروانے کے عوض بھی بھاری بھاری رقوم کا مطالبہ کرتا تھا۔ مرزا قادیانی کا لڑکا بشیر احمد ایم اے ایسا ہی ایک واقعہ نقل کرتا ہے۔
پٹیالہ کے ایک رئیس کے ہاں کوئی لڑکا پیدا نہ ہوا مرزا صاحب کے خواص سے دعا کی سفارش کروائی گئی ان کو جواب دیا کہ محض رسمی طور پر ہاتھ اٹھا دینے سے دعا نہیں ہوتی دو باتیں ضروری ہیں گہرا تعلق ہو یا دینی خدمت، رئیس سے کہو ایک لاکھ روپیہ دے تو پھر ہم دعا کریں گے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ پھر اﷲ تعالیٰ اس کو ضرور لڑکا دے گا۔
(سیرت المہدی ج اول ص 257) 
قارئین کرام! دوا فروش تو آپ نے بہت دیکھتے ہوں گے لیکن یہ دعا فروش پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہوں گے۔
قارئین کرام! مرزا قادیانی کی عفت و پاکدامنی پر چند واقعات نقل کئے ہیں جن سے مرزا قادیانی کے تقدس کاخوب اندازہ ہوسکتا ہے مزید تفصیلات جاننے کے لئے ’’دجال قادیان یا ابلیس قادیان‘‘ کتاب کا مطالعہ کریں۔

مرزا قادیانی کے دعوے

تاریخ میں بہت سے جھوٹے مدعی نوبت گزرے ہیں لیکن اُن میں سے بہت کم مدعی ایسے ہیں جن کے دعووں کی تعداد دو یا تین سے متجاور ہو ہاں البتہ مرزا قادیانی اس میدان میں بھی سب سے جدا ہے مرزا قادیانی نے اس کثرت سے دعوے کیے ہیں کہ اُن کا شمار ایک عام آدمی کے لیے بالکل محال ہے اور پھر دعوے بھی اتنے مضحکہ خیز ثناقض اور متضاد ہیں کہ یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ مرزا قادیانی جاندار ہے یا بے جان، انسان ہے چھلاوہ مرد ہے یا عورت، مسلمان ہے یا ہندو، مہدی ہے یا حارث، ولی ہے یانبی۔ چند دعاوی جات آپ بھی ملاحظہ فرمائیں شاید کہ فیصلہ کر سکیں:۔


بشر کی جائے نفرت:

کِرم خاکی ہو میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اورانسانوں کی عار
(خزائن ج ۲۱ ص۱۲۷)
اس شعر میں مرزا قادیانی نے خود کو انسان کی شرم اور عار کی جگہ کہا ہے تعین مرزائیوں کے ذمے ہے۔
میں سور مار ہوں:
حدیث شریف میں میرا نام’’ سور مار‘‘ رکھا گیا ہے کیونکہ مسیح کی تعریف میں ہے ’’ یقتل الخنزیر‘‘
(ذکر حبیب ص ۱۶۲)
امین الملک جے سنگھ بہادر ہونے کا دعویٰ:۔
بقول مرزا قادیانی اسے الہام ہوا ’’امین الملک جے سنگھ بہادر‘‘
(تذکرہ ص ۵۶۸ طبع چہارم)
میں کرشن ہوں:
خدا نے مجھے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے مسیح موعود بناکر بھیجا ہے ایسا ہی میں ہندوؤں کے لیے بطور اوتار کے ہوں۔
(روحانی خزائن ج۲۰ ص ۲۲۸)
میں آریوں کا بادشاہ ہوں:
خدا تعالیٰ نے بار بار میر ے پر ظاہرکیا ہے کہ جو کرشن آخری زمانے میں ظاہرہونے والا تھا وہ تو ہی ہے ’’آریوں کابادشاہ‘‘
(روحانی خزائن ج ۲۲ ص ۵۲۲ ۔۵۲۱)
گورنمنٹ برطانیہ کا تعویذ:
میں اس گورنمنٹ کے لیے بطور ایک تعویذ کے ہوں اوربطور ایک پناہ کے ہوں جو آفتوں سے بچاوے۔
(روحانی خزائن ج ۸ ص ۴۵)
میں خاتم الاولیاء ہوں:
بقول مرزا قادیانی اسے الہام ہوا ’’وانا خاتم الاولیا‘ ‘میں خاتم الاولیاء ہوں۔
(روحانی خزائن ج ۱۶ ص ۷۰)
میں مجدد، مہدی، مسیح ہوں:
میں وہ مجدد ہوں کہ جو خدا تعالیٰ کے حکم سے آیا ہے اور بندہ مدد یافتہ ہوں وہ مہدی ہوں جس کاآنا مقرر ہو چکا اور وہ مسیح ہوں جس کے آنے کا وعدہ تھا۔
(روحانی خزائن ج ۱۶ ص ۵۱)
میں حجر اسود ہوں:
ایک شخص نے میرے پاؤں کو چوما اور میں نے (اسے) کہا کہ حجر اسود میں ہوں (واقعی دل کی سختی کے اعتبار سے حجر اور رنگت کے اعتبار سے اسود تھا، ناقل)
(تذکرہ ص ۲۹ طبع چہارم)
میں بیت اﷲ ہوں:
خدا نے اپنے الہامات میں میرا نام بیت اﷲ رکھا ہے۔
(تذکرہ ص ۲۸ طبع چہارم)
میں قرآن ہوں:
بقول مرزا قادیانی اسے الہام ہوا : میں تو بس قرآن ہی کی طرح ہوں
(تذکرہ ص ۵۷۰ طبع چہارم)
میں مریم ہوں:
اس(اﷲ) نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ میں میرا نام مریم رکھا۔
یہ ہے مرزا قادیانی کے چند دعوؤں کی سرسری فہرست کیا کوئی انسان بقائمی ہوش و حواس اور بشرط عقل خرد مرزا قادیانی کو مجدد ، مسیح ،ولی، یا نبی تو درکنار اسے صحیح الدماغ انسان متصور کرسکتا ہے ؟
اور اسکی پیروی کو باعث نجات تصور کرسکتا ہے۔
نوٹ:
ان دعووں کے علاوہ مرزا قادیانی نے خدا، خدا کا بیٹا، خدا کا بیوی، رسالت و نبوت، انبیاء کا مظہر، انبیاء پر فضیلت، اور ایسے بہت سے تعلی آمیز دعوے کیے ہیں تفصیل دیکھنے کے لیے ’’ ابلیس قادیان یا قادیانی کافر کیوں‘‘ کتاب کا مطالعہ کریں:۔


مرزا کے جھوٹ

جھوٹ ایک ایسی بُری خصلت ہے جسے نہ صرف اسلام بلکہ ہرمذہب سے تعلق رکھنے والا بُرا جانتا ہے۔ اس کے علاوہ جھوٹ بولنا ایک معاشرتی اور اخلاقی عیب بھی ہے اس لیے انبیاء علیہم السلام کی ذوات قدسیہ جھوٹ سے مکمل بری ہوتے ہیں اسی لئے مرزا قادیانی جیسے کذاب نے بھی اپنی کتابوں میں کئی جگہ جھوٹ کی برائی بیان کی ہے۔ مرزا لکھتا ہے :



جھوٹ کے متعلق مرزا صاحب کے اپنے فتوے

1. ’’ جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں ‘‘

(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ حاشیہ ص۲۰، روحانی خزائن ص ۵۶ ج ۱۷)

2. ’’ جھوٹ بولنے سے بد تر دنیا میں اور کوئی براکام نہیں ‘‘

(تتمہ حقیقت الوحی ص ۲۶، روحانی خزائن ص۴۵۹ ج ۲۲)

3. ’’ تکلّف سے جھوٹ بولنا گوہ(پاخانہ) کھانے کے مترادف ہے ‘‘

(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۹ ، روحانی خزائن ص۳۴۳ج۱۱ ، حقیقت الوحی ص۲۰۶ج ۲۲ص ۲۱۵)

4. ’’ جھوٹ کے مردار کو کسی طرح نہ چھوڑنا یہ کتو ں کا طریق ہے نہ انسانوں کا ۔‘‘

(انجام آتھم مطبع قادیان ص ۴۰، روحانی خزائن ص ۴۳ج ۱۱)

5. ’’ ایسا آدمی جو ہر روز خدا پر جھوٹ بولتا ہے اور آپ ہی ایک بات تراشتا اور پھر کہتا ہے کہ یہ خدا کی طرف سے وحی ہے جو مجھ پر ہوئی ہے ایسا بد ذات انسان تو کتوں اور سوؤروں اور بندروں سے بد تر ہے ۔‘‘

(براہین احمدیہ ج۵ ص ۱۲۶،۱۲۷۔ روحانی خزائن ج۲۱ ص۲۹۲)

6. ’’ وہ کنجر جو ولد الزنا کہلاتے ہیں وہ بھی جھوٹ بولتے ہوئے شرماتے ہیں ۔ ‘‘

(شحنہ حق ص۶۰، روحانی خزائن ج۲ ص ۳۸۶)

7. ’’جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہوجا ئے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا ۔‘‘

(چشمہ معرفت ص۲۲۲،روحانی خزائن ص۲۳۱ ج۲۳)
مرزا کے جھوٹ

اب ہم مرزا کے چند ایک جھوٹ پیش کرتے ہیں اس کے کذبات کا کما حقہ احاطہ کرنا کارے دارد ہے ۔ ہم نمونے کے طور پر چند اکاذیب مرزا بیان کریں گے۔
جھوٹ نمبر 1
’’ اولیاو گزشتہ کے کشوف نے اس بات پر قطعی مہر لگادی ہے کہ وہ )مسیح موعود۔ناقل) چودہویں صدی کے سر پر پیدا ہوگا اور نیزیہ کہ پنجاب میں ہوگا۔‘‘ (اربعین نمبر ۲ص۲۳ طبع چناب نگر)ربوہ) ، روحانی خزائن ج۱۷ ص۳۷۱)
﴿مطبع قادیان میں انبیاء کا لفظ ہے بعد کے ایک ایڈیشن میں یہ وضاحت کی گئی کہ یہ لفظ غلطی سے لکھا گیا اور اب نئے ایڈیشن میں یہ وضاحت بھی حذف کردی گئی ہے ﴾ اولیا ء جمع کثرت ہے او رجمع کثرت دس سے اوپر ہوتی ہے اس لئے کم از کم دس معتمد اولیاء کے نام پیش کرو جنہوں نے بذریعہ کشف مہرلگائی ہو اور ولی ایسا ہو جس کو دونوں فریق صحیح ولی مانیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ مرزا کا یہ سفید جھوٹ ہے کسی مسلمہ ولی نے اس بات کی تصریح نہیں کی کہ مہدی چودہویں صدی میں ہوگا اور نیزیہ کہ پنجاب میں ہوگا ۔ یہ تمام اولیاء کرام پر جھوٹ ہے ۔
جھوٹ نمبر 2
’’ اے عزیزو تم نے وہ وقت پا یا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی ہے اور اس شخص کو یعنی مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا جس کے دیکھنے کیلئے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی ۔‘‘

(اربعین نمبر ۴ ص ۱۳،روحانی خزائن ص۴۴۲ ج۱۷)
یہ بھی بالکل صاف جھوٹ ہے کسی ایک پیغمبر سے یہ خواہش کرنا ثابت نہیں ہے ۔
جھوٹ نمبر 3
’’ یہ بھی یاد رہے کہ قرآن شریف میں بلکہ توراۃ کے بعض صحیفوں میں بھی یہ خبر موجود ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں طاعون پڑے گی بلکہ مسیح علیہ السلام نے بھی انجیل میں یہ خبر دی ہے ۔‘‘ (کشتی نوح ص ۵، روحانی خزائن ص۵ ج۱۹) اسی عبارت کے متعلق اسی صفحہ پر حاشیہ لکھا ’’ مسیح موعود کے وقت میں طاعون کا پڑنا بائبل کی ذیل کی کتابوں میں موجود ہے :زکریا باب ۱۴ آیت ۱۲بائبل ۸۹۱، انجیل متی باب ۲۴ آیت ۸، مکاشفات باب ۲۲ آیت ۸،عہد نامہ جدید ص۲۵۹۔‘‘ اس عبارت میں ایک جھوٹ نہیں بلکہ خدا تعالی کی چار آسمانی کتابوں پر چار عدد جھوٹ ہیں ۔ مذکورہ کتب کے مذکورہ صفحات پر ہر گز مسیح موعود کے وقت طاعون کے پڑنے کا ذکر نہیں ہے ۔
جھوٹ نمبر 4:
ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نبیوں کیطرح ظاہری علم کسی استاد سے نہیں پڑھا مگر عیسی علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام مکتبوں میں بیٹھے تھے اور حضرت عیسیٰ نے ایک یہودی استاد سے تمام توراۃ پڑھی تھی ……۔ سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن و حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہو گا سو میں یہ حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن وحدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہویا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیا ر کی ہو۔‘‘ (ایام صلح ص۱۴۷، روحانی خزائن ص۳۹۴ ج ۱۴) 
یہ صریح جھوٹ ہے ۔ حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہماالسلام نے کون سے مکتبوں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کی ؟ یہ ان انبیا ء پر صریح الزام ہے ، قرآن و احادیث صحیحہ سے ثابت کرو کہ حضرت عیسیٰ نے کون سے یہودی عالم سے توراۃ پڑھی تھی ۔ حالانکہ قرآن پاک میں ہے ’’ ویعلمہم الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل‘‘ یعنی میں خود ان کو تعلیم دوں گا اسی طرح قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے ’’ واذاعلمتک الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل ‘‘ اور جب میں نے کتاب اور حکمت توراۃ وانجیل سکھائی۔ (پ۷ سورۃ المائدۃ آیت ۱۱۰ رکوع ۱۰) اس میں بھی تعلیم کی نسبت خدا تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے آگے جو اپنے بارے میں لکھا ہے کہ میرا یہی حال ہے ……الخ ۔یہ بھی صاف جھوٹ ہے ہم ثابت کرتے ہیں کہ مرزا کے متعدد اساتذہ تھے۔کتاب البریۃ ص۱۶۱ تا ۱۶۳،روحانی خزائن ص۱۸۰ ۔ ۱۸۱ ج۱۳ کے حاشیہ پر اس کے اپنے ہاتھوں سے اس کی تعلیم کا حال موجود ہے جیسا کہ شروع میں گذر چکا ہے۔
جھوٹ نمبر 5:
’’ احادیث صحیحہ میں آیاتھا کہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا اور چودہویں صدی کا مجدد ہوگا۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ۱۸۸،روحانی خزائن ج۲۱ ص ۳۵۹) جبکہ کتاب البریہ ص ۱۸۷۔۱۸۸ بر حاشیہ روحانی خزائن ج۱۳ ص۲۰۵۔۲۰۶ کی عبارت یہ ہے:
’’ بہت سے اہل کشف نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر خبر دی تھی کہ وہ مسیح موعود چودہویں صدی کے سر پر ظہور کرے گا اور یہ پیش گوئی اگرچہ قرآن شریف میں صرف اجمالی طورپر پائی جاتی ہے مگر احادیث کی رو سے اس قدر تواتر تک پہنچی ہے کہ جس کا کذب عندالعقل ممتنع ہے ۔‘‘ احادیث جمع کثر ت ہے اس لئے کم ازکم دس احادیث صحیحہ متواترہ دکھاؤ جن میں مسیح موعود کے چودھویں صدی کے سر پر آنے کے الفاظ وغیرہ موجود ہوں مگر ہمارا دعویٰ ہے کہ مرزائی امت تا قیامت کوئی ایک بھی صحیح حدیث نہیں دکھا سکتی ۔ یہ حضور ﷺ پر صریح افتراء اور بہتان ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا :
’’ من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعد ہ من النار ‘‘ ’’ یعنی جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا پس وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ‘‘ لہذا یہ جھوٹ بول کر بھی مرزا جہنمی ہوا۔
جھوٹ نمبر 6:
’’ اگر احادیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہیے جو صحت اور وثوق میں اس حدیث پر کئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں مثلاً صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میں آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کیلئے آواز آئے گی کہ: ’’ ھذا خلیفۃ اﷲ المہدی‘‘ اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ہے ۔‘‘
(شہادۃ القرآ ن ص ۴۱،روحانی خزائن ص۳۳۷ج۶)
جھوٹ بالکل جھوٹ ! بخاری شریف میں اس قسم کی کوئی حدیث نہیں ۔ ھاتوا برہانکم ان کنتم صادقین ۔
جھوٹ نمبر 7:
’’ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے ۔ مکہ ، مدینہ اور قادیان ۔‘‘
(ازالہ اوہام بر حاشیہ ص۳۴، روحانی خزائن ص ۱۴۰ ج۳)
جھوٹ نمبر 8:
’’ وقد سبونی بکل سب فمارددت علیہم جوابہم ‘‘
ترجمہ:مجھ کو گالی دی گئی میں نے جواب نہیں دیا
(مواہب الرحمن ص۱۸ طبع اول ص۲۰ طبع دوم۔ روحانی خزائن ص۲۳۶ ج۱۹) 
یہ بالکل جھوٹ ہے کہ میں نے لوگوں کی گالیوں کا جواب نہیں دیا بلکہ خود مرزا صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ میرے سخت الفاظ جوابی طور پر ہیں ابتدا سختی کی مخالفوں کی طرف سے ہے ۔
(کتاب البریۃ دیباچہ ص۱۰، روحانی خزائن ص ۱۱ ج۱۳)
جھوٹ نمبر9 :
تفسیر ثنائی میں لکھا ہے کہ ابوہریرہ فہم قرآن میں ناقص تھا۔ (خزائن ج۲۱ ص ۴۱۰) یہ مرزا قادیانی کا تفسیر ثنائی پر خالص افتراء ہے۔ تفسیر ثنائی میں کہیں یہ بات نہیں لکھی گئی، مرزا قادیانی کو تفسیر ثنائی پر جھوٹ اس لئے بولنا پڑا کہ اس بدبخت نے خود اپنی کتابوں میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی توہین کرتے ہوئے انہیں ناقص الفہم لکھا ہے اس لیے اعتراض سے بچنے کیلئے اس توہین کی نسبت تفسیر ثنائی کی طرف کر دی۔ ہمارا مرزائیوں کو چیلنج ہے کہ تفسیر ثنائی میں یہ الفاظ دکھائیں تاکہ مرزے کے ماتھے سے جھوٹ کی اس لعنت کا داغ دھو سکیں۔
جھوٹ نمبر10:
حدیثوں میں صاف لکھا ہے کہ مسیح موعود کی تکفیرہوگی اور علمائے وقت اس کو کافر ٹھہرا ئیں گے اور کہیں گے کہ یہ سچ ہے اس نے تو ہمارے دین کی بیخ کنی کردی ہے۔(خزائن ج ۱۷ ص ۲۱۳) یہ خالص افتراء ہے کسی ایک حدیث میں بھی ایسی بات نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب مرزا قادیانی کے تعلی آمیز دعووں اور توہین آمیز عبارات کو دیکھتے ہوئے علماء کرام نے اس کے کفر کا اعلان کیا تو مرزا قادیانی نے محض اپنے کفر کے خلاف اس تحریک کو کمزور کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراء باندھ دیا۔
قارئین کرام! مرزا قادیانی کے چند جھوٹ آپ کے سامنے نقل کیے ہیں آپ مرزا قادیانی کے فتووں کو سامنے رکھیں اور فیصلہ کریں کہ کیا مرزا قادیانی شرک نہیں کر رہا؟ کیا مرزا قادیانی کتوں کے طریق پر نہیں چل رہا؟ کیا مرزا قادیانی جھوٹ بول کرگوہ نہیں کھا رہا؟ اور کیا مرزا قادیانی وہ کام نہیں کر رہا جس کے کرنے میں ولد الزنا کنجر بھی شرماتے ہوں۔



قادیانیوں اور دوسرے کافروں میں فرق

قادیانی اور دوسرے غیر مسلموں میں فرق ہے اسی فرق کی بنا پر دوسرے غیر مسلموں کے ساتھ میل ملاپ اورضروری تعلقات کی اجازت ہے اور قادیانیوں کے ساتھ ایسے کسی تعلق کی اجازت نہیں ہے۔ قادیانی مرتد اور زندیق ہیں، مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام کو ترک کر کے کوئی اور مذہب اختیار کر لے اور زندیق وہ ہوتا ہے جو اپنے کفریہ عقائد کو اسلام کا نام دے، لہذا یہ لوگ اسلام کے باغی ہیں،اور جس طرح کسی ملک کاباغی کسی رو رعایت کا مستحق نہیں ہوتا بلکہ جو لوگ ان لوگوں کے ساتھ میل جول رکھیں وہ بھی قابل گرفت ہوتے ہیں، ٹھیک اسی طرح چونکہ قادیانی بھی زندیق اور مرتد ہیں تو اسلامی تعلیمات کے رو سے کسی رو رعایت اور میل ملاپ کے مستحق نہیں، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصاریٰ کے ساتھ تعلق رکھا اور معا ہد ہ بھی کیا، مگر مدعیان نبوت (اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب)کے ساتھ نہ صرف تعلقات کو ناجائز قرار دیا، بلکہ حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ اسود عنسی کا کام تمام کرایا اور مسیلمہ کذاب کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ٹھکانے لگایا۔اس لئے کہ دوسرے کافر اپنے کفر کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے آپ کو غیر مسلم اور مسلمانوں سے الگ قرار دیتے ہیں، جبکہ قادیانی عقائد پر ملمع سازی کرکے مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں اور ان ہر دوکو ایک مثال سے پیش کرتا ہوں۔سب کومسئلہ معلوم ہے کہ شریعت میں شراب ممنوع ہے۔ شراب کا پینا، اس کا بنانا، اس کا بیچنا تینوں حرام ہیں اور یہ بھی معلوم ہیں کہ شریعت میں خنزیر حرام اور نجس العین ہے۔ اس کا گوشت فروخت کرنا، لینا دینا، کھانا پیناقطعی حرام ہے۔ اب ایک آدمی وہ ہے جو شراب فروخت کرتا ہے یہ بھی مجرم ہے، اور ایک دوسرا آدمی ہے جو شراب فروخت کرتا ہے اور مزید ستم یہ کرتا ہے کہ شراب پر زمزم کا لیبل چپکاتا ہے یعنی شراب بیچتا ہے اس کو زم زم کہہ کر، مجرم دونوں ہیں لیکن ان دونوں مجرموں کے درمیان کیا فرق ہے؟ وہ آپ خوب سمجھتے ہیں۔ اسی طرح آدمی خنزیر فروخت کرتا ہے مگر اس کو خنزیر کہہ کر فروخت کرتا ہے۔ وہ صاف صاف کہتا ہے کہ یہ خنزیر کا گوشت ہے جس کو لینا ہے لے جائے اور جو نہیں لینا چاہتا وہ نہ لے۔یہ شخص بھی خنزیر بیچنے کا مجرم ہے لیکن اس کے مقابلے میں ایک اور شخص ہے جو خنزیر اور کتے کا گوشت فروخت کرتا ہے بکری کا گوشت کہہ کر۔ مجرم وہ بھی ہے اور مجرم یہ بھی۔ دونوں مجرم ہیں لیکن ان دونوں کے جرم کی نوعیت میں زمین و آسمان کافرق ہے۔ ایک حرام کو بیچتا ہے۔ اس حرام کے نام سے، جس کے نام سے بھی مسلمان کو گھن آتی ہے اور دوسرا اسی حرام کو بیچتا ہے۔ حلال کے نام سے، جس سے ہر شخص کو دھوکہ ہوسکتا ہے اور وہ اس کے ہاتھ سے خنزیر کا گوشت خرید کر اوراسے حلال اور پاک سمجھ کر کھاسکتا ہے۔ پس جو فرق خنزیر کو خنزیر کہہ کر بیچنے والے کے درمیان اور خنزیر کو بکری یا دنبہ کہہ کر بیچنے والے کے درمیان ہے۔ ٹھیک وہی فرق یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں، سکھوں کے درمیان اور قادیانیوں کے درمیان ہے۔ کفر ہر حال میں کفر ہے۔ اسلام کی ضد ہے لیکن دنیا کے دوسرے کافر اپنے کفرپر اسلام کا لیبل نہیں چپکاتے اور لوگوں کے سامنے اپنے کفر کو اسلام کے نام سے پیش نہیں کرتے مگر قادیانی اپنے کفر پر اسلام کا لیبل چپکاتے ہیں اور مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں کہ یہ اسلام ہے۔

قادیانی مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں

مرزا قادیانی اور اُس کے بیٹوں کی تحریروں کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں کہ وہ دنیا کے 2 ارب مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں: مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ :
خداتعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔
(تذکرہ ص519 طبع چہارم)
جو میرے مخالف تھے اُن کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا ہے
(خزائن ج18ص382)
ان الہامات میں میری نسبت باربار بیان کیاگیا ہے کہ یہ خدا کافرستادہ، خدا کا مامور، خدا کا امین اور خدا کی طرف سے آیا ہے جوکچھ کہتاہے اس پر ایمان لاؤ اور اسکا دشمن جہنمی ہے۔
(خزائن ج11ص62)
قادیانی ذریت بھی اسی نقش قدم پر چلی ہے۔ مرزاقادیانی کا لڑکا مرزا محمود لکھتاہے کہ :
ہمارا فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں۔
(انوا خلافت ص90)
اس عبارت کا حاصل یہ ہوا کہ جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ فرض ہے اورفرضیت کا انکار کفر ہے ایسے ہی مرزائیوں کے نزدیک تمام مسلمانوں کو کافر سمجھنا فرض ہے اور اس فرضیت (اہل اسلام کے کفر) کا انکار کرنابھی کفر ہے۔ مزید لکھتاہے :
کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انھوں نے نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
مرزاقادیانی کا دوسرا لڑکا مرزا بشیر احمد ایم اے مسئلہ کفر و اسلام کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتاہے کہ :
ہر وہ شخص جو موسیٰ کا مانتاہے لیکن عیسیٰ کو نہیں مانتا یا عیسیٰ کو مانتاہے لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتا یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تو مانتاہے لیکن مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کا فر بلکہ پکا کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
(کلمۃ الفضل ص105)
مرزا بشیر قادیانی کی اس عبارت کے مطابق جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور نبی کا انکار کفر ہے، ایسے ہی مرزاقادیانی کا انکار بھی کفر ہے اور یہ انکار دائرہ اسلام سے باہر پھینک دیتا ہے۔
قادیانی دھوکہ:
قادیانی ذریت پوری امت مسلمہ کو کافر سمجھتی ہے جس پر مذکورہ قادیانی عبارات شاید ہیں لیکن قادیانی بعض اوقات مخالفت سے بچنے یا پھر ذاتی مفاد کے حصول کے لیے سادہ لوح مسلمانوں کو صریح دھوکہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تو تمہیں کافر نہیں کہتے۔ حالانکہ ان مذکورہ عبارات کے علاوہ مرزائیوں کا ایک سوسالہ طرز عمل بھی یہی بتاتاہے کہ قادیانی ہمیں غیر مسلم ہی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ مرزائی کتب میں مسلمانوں سے جملہ مذہبی و معاشی اور معاشرتی معاملات میں مکمل بائیکاٹ کی تعلیم ہے۔ چند تحریرات ملاحظہ فرمائیں۔
مرزا قادیانی کا لڑکا بشیر احمد ایم اے لکھتاہے کہ :
حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے غیر احمدیوں کے ساتھ وہی سلوک جائز رکھاہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں کے ساتھ رکھا ہے۔
(کلمۃ الفضل ص169,170)
مزید لکھتاہے کہ :
دوقسم کے تعلقات ہوتے ہیں ایک دینی اور دوسرے دنیوی، دینی تعلق کا بھاری ذریعہ عبادت کا اکٹھا ہونا ہے اور دنیاوی تعلقات کا بھاری ذریعہ رشتہ و ناطہ ہے۔ سو یہ دونوں ہمارے لیے حرام قرار دئیے گئے۔
(کلمۃ الفضل 169,170)
مرزاقادیانی کا دوسرا لڑکا مرزا محمود لکھتاہے کہ :
حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہمارا ان (مسلمانوں) سے اللہ تعالیٰ، رسول کریم، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ غرض ہر چیز میں ہمیں ان سے اختلاف ہے۔
(الفضل 30 جولائی 1931ء)
مرزاقادیانی لکھتاہے کہ:
تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذب مرتد کے پیچھے نماز پڑھو۔
(تذکرہ ص318 طبع چہارم)
مرزا محمود مسلمان کا جنازہ پڑھنے کے بارے میں لکھتاہے کہ :
جیسے غیر احمدی (مسلمان) کا جنازہ پڑھنا درست نہیں اسی طرح ان کے بچوں کا جنازہ پڑھنا بھی درست نہیں ہے کیونکہ یہ ایسے ہیں جیسے ہندوں کے بچوں کا جنازہ۔
(ملخصاً از انوار خلافت 93 انوار العلوم ج3ص150)
انہی مذکورہ عقائد و نظریات کیوجہ سے پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان قادیانی نے قائد اعظم کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، جب اس سے جنازہ نہ پڑھنے کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ :
آپ مجھے کافر حکومت کا مسلمان وزیر سمجھ لیں یا مسلمان حکومت کاکا فر نوکر
(زمیندار لاہور 8 فروری 1950 ء)
غرض قادیانی کتب میں اہل اسلام کے ساتھ صرف اسی قدر تعلقات کی اجازت ہے جتنی اسلام میں غیر مسلموں کے ساتھ، جس پر قادیانی کتابوں اور ان کا 100 سوسالہ طرز عمل گواہ ہے۔

قادیانی کلمہ اسلام کیوں پڑھتے ہیں

مرزا قادیانی کے لڑکے مرزا بشیر احمد ایم اے سے کسی نے پوچھا کہ تم مرزا قادیانی کو نبی مانتے ہو تو کلمہ ہمارے نبی کا کیوں پڑھتے ہو؟ تمہیں مرزا قادیانی کا کلمہ پڑھنا چاہیے۔ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں تو کلمہ بھی عیسیٰ علیہ السلام کا پڑھتے ہیں۔ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں تو کلمہ بھی موسیٰ علیہ السلام کا پڑھتے ہیں تو مرزاقادیانی کے لڑکے مرزابشیر احمد ایم اے نے اپنی کتاب کلۃ الفصل میں اس کے دو جواب دئیے ہیں۔ مرزا بشیر احمد ایم اے کا پہلا جواب یہ ہے کہ
محمدرسول اللہ کا نام کلمہ میں اس لیے رکھا گیا ہے کہ آپ نبیوں کے سرتاج اور خاتم النبین ہیں اور آپ کے نام لینے سے باقی سب نبی خود اندر آجاتے ہیں ہر ایک کا علیحدہ نام لینے کی ضرورت نہیں ہے ہاں حضرت مسیح موعود کے آنے سے ایک فرق ضرور پیدا ہوگیا ہے اور وہ یہ ہے کہ مسیح موعود کی بعثت سے پہلے محمد رسول اللہ کے مفہوم میں صرف آپ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء شامل تھے مگر مسیح موعود کی بعثت کے بعد محمد رسول اللہ کے مفہوم میں ایک اور رسول کی زیادتی ہوگئی غرض اب بھی اسلام میں داخل ہونے کیلئے یہی کلمہ ہے۔ صرف فرق اتنا ہے کہ مسیح موعود کی آمد نے محمد رسول اللہ کے مفہوم میں ایک رسول کی زیادتی کردی ہے اور بس۔
(ص نمبر 12، ص نمبر 13)
یہ تو ہوا مسلمانوں اور قادیانی اور غیر مسلم اقلیت کے کلمے میں پہلا فرق جس کا حاصل یہ ہے کہ قادیانیوں کے کلمے کے مفہوم میں مرزاقادیانی بھی شامل ہے اور مسلمانوں کا کلمہ اس نئے نبی کی زیادتی سے پاک ہے۔ مرزا بشیر احمد ایم اے دوسرا جواب یہ ہے کہ:
علاوہ اس کے اگر بفرض محال یہ بات مان بھی لیں کہ کلمہ شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک اس لیے رکھا گیا ہے کہ آپ آخری نبی ہیں تو تب بھی کوئی اعتراض واقع نہیں ہوتا اور ہم کو نئے کلمے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے ”صاروجود ی وجودہ“ یعنی میرا وجود محمد رسول اللہ کا وجود بن گیا ہے۔ نیز ”من فرق بینی وبین المصطفیٰ فما عرفنی ومارانی“ یعنی جس نے مجھ کو اور مصطفی کو الگ الگ سمجھا اس نے نہ مجھے دیکھا اور نہ پہچانا۔ اور اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبین کو مبعوث کرے گا جیساکہ آیت ”آخرین منھم“ سے ظاہر ہے پس مرزا قادیانی خود محمد رسول اللہ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لیے ہمیں نئے کلمے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ ہاں اگر محمد رسول اللہ کی جگہ اور آتا تو نئے کلمے کی ضرورت پیش آتی۔
(کلمۃ الفضل ص157)
یہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے کلمے میں دوسرا فرق ہوا کہ مسلمانوں کے کلمے شریف میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں اور قادیانی جب محمد رسول اللہ کہتے ہیں تو اس سے مراد جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لیتے ہیں وہاں مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی لیتے ہیں۔ ان دونوں جوابوں سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں اور مرزائیوں کے کلمے میں کیا فرق ہے اور یہ کہ مرزائی کلمہ میں موجودمحمد رسول اللہ کا مفہوم کیا لیتے ہیں۔



امام مہدی علیہ السلام کا مختصر تعارف

حضرت مہدی علیہ الرضوان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے اور جس پر اہل حق کا اتفاق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنھا کی نسل سے ہوں گے اور نجیب الطرفین سید ہوں گے۔ ان کا نام نامی محمد اور والد کا نام عبداللہ ہوگا۔ وہ نبی نہیں ہوں گے، نہ ان پر وحی نازل ہوگی، نہ وہ نبوت کا دعویٰ کریں گے۔ان کی کفار سے خوں ریز جنگیں ہوں گی، ان کے زمانے میں کانے دجال کا خروج ہوگا اور وہ لشکر دجال کے محاصرے میں گھِرجائیں گے، ٹھیک نماز فجر کے وقت دجال کو قتل کرنے کے لئے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور فجر کی نماز حضرت مہدی علیہ الرضوان کی اقتدا میں پڑھیں گے، نماز کے بعد دجال کا رخ کریں گے، وہ لعین بھاگ کھڑا ہوگا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا تعاقب کریں گے اور اسے “بابِ لُدّ” پر قتل کردیں گے، دجال کا لشکر تہ تیغ ہوگا اور یہودیت و نصرانیت کا ایک ایک نشان مٹادیا جائے گا۔


1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔