Sunday, June 28, 2015

توضیح الکلام فی اثبات حیات عیسیٰ علیہ السلام عقیدہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کی اہمیت

0 comments
توضیح الکلام فی اثبات  حیات عیسیٰ علیہ السلام عقیدہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کی اہمیت
قادیانیوں کے ساتھ مناظرہ کرتے وقت علماء اسلام کے لئے صدق وکذب مرزا کی بحث سے زیادہ عام فہم اور فیصلہ کن اور کوئی مبحث نہیں۔ باوجود اس کے میں نے حیات عیسیٰ علیہ السلام کے ثبوت میں کیوں قلم اٹھایا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عقیدہ کلام اﷲ میں مفصل بیان کیاگیا ہے۔ رسول کریمﷺ کی سینکڑوں احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ ہزارہا صحابہ کرامؓ اسی عقیدہ پر فوت ہوئے۔ بے شمار اولیائؒ، وصلحاؒ بالخصوص مجددین امتؒ اسی عقیدہ پر قائم رہے۔ پس اگر اب اس کی صداقت سے انکار کیا جائے تو اس سے ایک فساد عظیم برپا ہوتا ہے۔ جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
۱… حیات عیسیٰ علیہ السلام کے انکار کے بعد ماننا پڑے گا کہ قرآن شریف کا مطلب ساڑھے تیرہ سو سال تک نہ تو رسول کریمﷺ کو سمجھ میں آیا نہ صحابہ کرامؓ نے ہی سمجھا اور نہ کسی مجدد امت یا مفسر قرآن کو اس کی حقیقت معلوم ہوئی اور یہ امر محال عقلی ہے۔
۲… قادیانیوں نے جس قدر تاویلات رکیکہ کر کے حیات مسیح علیہ السلام کے عقیدہ کو غلط ٹھہرایا ہے۔ اس کے تسلیم کر لینے سے ہر ایک ملحد اور محرف کو کلام اﷲ کا مطلب بگاڑنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ مثلاً گندم بمعنی گڑ، پانی، بمعنی دودھ وبالعکس کرنے والا ایسا ہی سچا ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی۔
۳… جب قرآن شریف کی تفسیر رسولﷺ، تفسیر صحابہؓ، تفسیر مجددین قابل اعتبار نہ سمجھی جائے تو اسلام کی تکذیب لازم آتی ہے۔ جس مذہب میں بقول مرزاقادیانی ایک مشرکانہ عقیدہ سینکڑوں سال تک اجماعی صورت میں قائم چلا آیا ہے۔ اس سے اور کون سی امید صداقت کی ہوسکتی ہے؟
۴… اگر کوئی شخص کسی نبی مثلاً یونس علیہ السلام کی نبوت سے انکار کرے یا جنگ بدر یا جنگ احد کی واقعیت سے انکار کرے۔ یا حضرت نوح علیہ السلام کی طوالت عمری کا انکار کرے یا مثلاً یوں کہے کہ ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی نہ تھے۔ یا حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے نہ تھے۔ یا مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ ان کے بھائیوں نے کوئی بدسلوکی نہیں کی تھی تو بظاہر یہ سارے اقوال ایسے ہیں کہ ایک ظاہر بین انسان ان کی تردید کرنے کو ایک لایعنی فعل اور فضول کام قرار دے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان اقوال کی رو سے تکذیب کلام اﷲ لازم آتی ہے۔ مثلاً کلام اﷲ میں حضرت یونس علیہ السلام کی نبوت کا اقرار ہے اور قائل اس سے انکار کرتا ہے۔ پس اس سے تکذیب باری تعالیٰ لازم آتی ہے۔ اسی طرح حیات مسیح علیہ السلام کے انکار سے تکذیب باری تعالیٰ، تکذیب رسولﷺ، تکذیب صحابہؓ، تکذیب مجددین امت بلکہ تکذیب جمیع اولیاء امت کا اقرار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے قبول کر لینے کے بعد اسلام میں پھر کوئی عقیدہ کوئی بات بھی قابل اعتبار نہیں رہتی۔ اس واسطے میں نے عوام الناس بالخصوص سائنس زدہ انگریزی تعلیم یافتہ حضرات کے سامنے مسئلہ کی حقیقت الم نشرح کرنی ضروری سمجھی۔
العارض بندہ ابوعبیدہ۔ بی اے

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔