Sunday, June 28, 2015

قادیانی اعتراض 2 :مسیح کے دوبارہ آنے پر اہل کتاب سے مراد کون لوگ ہوں گے؟

0 comments
قادیانی اعتراض 2 :مسیح کے دوبارہ آنے پر اہل کتاب سے مراد کون لوگ ہوں گے؟
قادیانی اعتراض :…’’بعض لوگ کچھ شرمندے سے ہوکر دبی زبان سے یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ اہل کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسیح کے دوبارہ آنے کے وقت دنیا میں موجود ہوں گے اور وہ سب مسیح کو دیکھتے ہی ایمان لے آویں گے اور قبل اس کے جو مسیح فوت ہو وہ سب مؤمنوں کی فوج میں داخل ہوجائیں گے۔ لیکن یہ خیال بھی ایسا باطل ہے کہ زیادہ لکھنے کی حاجت نہیں۔ اوّل تو آیت موصوفہ بالا صاف طور پر فائدہ تعمیم کا دے رہی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے لفظ سے تمام وہ اہل کتاب مراد ہیں جو مسیح کے وقت میں یا مسیح کے بعد برابر ہوتے رہیں گے اور آیت میں ایک بھی ایسا لفظ نہیں جو آیت کو کسی خاص محدود زمانہ سے متعلق اور وابستہ کرتا ہو۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۶۸، خزائن ج۳ ص۲۸۹)
جواب نمبر:۲
… دوسرے اعتراض میں مرزاقادیانی نے (گستاخی معاف) بہت دجل وفریب سے کام لیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’بعض لوگ دبی زبان سے کہتے ہیں کہ اہل کتاب سے وہ لوگ مراد ہیں جو مسیح کے دوبارہ آنے کے وقت دنیا میں موجود ہوں گے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۶۸، خزائن ج۳ ص۲۸۹)
اجی کیوں جھوٹ بولتے ہو۔ جن کے پاس قرآن کی گواہی، حدیث رسول اﷲﷺ کی شہادت، صحابہؓ کی تائید اور مجددین امت کا متفقہ فیصلہ ہو۔ وہ بھلا دبی زبان سے کہے گا؟ یہ محض آپ کی چالاکی ہے۔ جس کے متعلق رسول پاکﷺ نے پہلے سے پیش گوئی فرمائی ہوئی ہے۔ دجالون، کذابون یعنی بہت سے فریب بنانے والے اور بہت جھوٹ بولنے والے ہوں گے۔ پھر مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ:
’’آیت تعمیم کا فائدہ دے رہی ہے۔ یعنی اہل کتاب کے لفظ سے مراد تمام وہ لوگ مراد ہیں جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں یا ان کے بعد برابر ہوتے رہے ہیں۔‘‘
کیوں مرزاقادیانی! جناب نے تعمیم کا لفظ استعمال کر کے پھر اہل کتاب کو ’’حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں اور بعد میں‘‘ کے ساتھ کیوں مقید ومحدود کر دیا۔ اگر آپ کے قول کے مطابق آیت تعمیم کا فائدہ دے رہی ہے۔ یعنی سارے اہل کتاب اس سے مراد ہیں تو پھر حضرت مسیح علیہ السلام سے پہلے کے اہل کتاب کیوں شمار نہیں ہوں گے؟ جس دلیل سے آپ حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے کے اہل کتاب کو اس سے الگ کریں گے۔ اسی دلیل سے ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے پہلے کے یہودی ونصرانی کو الگ کر دیں گے۔
علاوہ ازیں بمطابق ’’دروغ گورا حافظہ نباشد‘‘ خود مرزاقادیانی اگلے ہی فقرہ میں لکھتے ہیں۔
’’آیت میں ایک بھی ایسا لفظ نہیں جو آیت کو کسی خاص زمانہ سے متعلق اور وابستہ کرتا ہو۔‘‘ باوجود اس کے خود آیت کو ’’حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت اور ان کے بعد‘‘ سے وابستہ کر رہے ہیں۔ شاید مرزاقادیانی کے نزدیک زمانے صرف دو ہی ہوتے ہوں۔ زمانہ ماضی، مضی مامضی کا شکار ہوکر رہ گیا ہو۔ جب آیت کی زد میں تمام اہل کتاب آتے ہیں تو حضرت مسیح علیہ السلام سے پہلے کے یہودی کیوں اس میں شامل نہ کئے جائیں۔ مرزاقادیانی ان اہل کتاب کو اس کا مخاطب نہیں سمجھتے۔ جو جواب قادیانی اس سوال کا دیں گے۔ وہی جواب اہل اسلام ان کے اس اعتراض کا دیں گے۔ ناظرین حقیقت یہ ہے کہ قادیانی اعتراضات کلہم جہالت پر مبنی ہیں۔ اگر ان کو علم عربی اور اس کے اصولوں سے ذرا بھی واقفیت ہوتی تو واﷲ ان اعتراضات کا نام بھی نہ لیتے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔