مرزا غلام احمد قادیانی کی سیرت قادیانیوں کی اپنی کُتب سے
مرزا قادیانی کا باپ بے نمازی تھا
بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ ایک دفعہ قادیان میں ایک بغدادی مولوی آیا۔ دادا صاحب نے اس کی بڑی خاطر و مدارت کی۔ اس مولوی نے دادا صاحب سے کہا کہ مرزا صاحب! آپ نماز نہیں پڑھتے؟ دادا صاحب نے اپنی کمزوری کا اعتراف کیا اور کہا کہ ہاں بے شک میں میری غلطی ہے۔ مولوی صاحب نے پھر بار بار اصرار کے ساتھ کہا اور ہر دفعہ دادا صاحب یہی کہتے گئے کہ میرا قصور ہے۔ آخر مولوی نے کہا آپ نماز نہیں پڑھتے، اللہ آپ کو دوزخ میں ڈالے گا۔ اس پر دادا صاحب کو جوش آ گیا اور کہا ” تمہیں کیا معلوم ہے کہ وہ مجھے کہاں ڈالے گا میں اللہ تعالی پر ایسا بدظن نہیں ہوں میری امید وسیع ہے خدا فرماتا ہے لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رّحْمَۃِ اللّہ۔ تم مایوس ہو گے میں مایوس نہیں ہوں، اتنی بے اعتقادی میں تو نہیں کرتا“ پھر کہا ” اس وقت میری عمر 75 سال کی ہے۔ آج تک خدا نے میری پیٹھ نہیں لگنے دی تو کیا اب وہ مجھے دوزخ میں ڈال دیگا۔“ خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیٹھ لگنا پنجابی کا محاورہ ہے جس کے معنی دشمن کے مقابلے میں ذلیل و رسوا ہونا ہے۔ ورنہ ویسے مصائب تو دادا صاحب پر بہت آئے ہیں۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول، روایت نمبر 224 صفحہ نمبر 212)
اور ہڈی ٹوٹ گئی
بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسط مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ ایک دفعہ والد صاحب اپنے چوبارے کی کھڑکی سے گر گئے اور دائیں بازو پر چوٹ آئی چنانچہ آخری عمر تک وہ ہاتھ کمزور رہا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ اپ کھڑکی سے اترنے لگے تھے سامنے سٹول رکھا تھا وہ الٹ گیا اور آپ گر گئے اور دائیں ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور یہ ہاتھ آخر عمر تک کمزور رہا۔ اس ہاتھ سے اپ لقمہ منہ تک لے جا سکتے تھے مگر پانی کا برتن وغیرہ منہ تک نہیں اٹھا سکتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ نماز میں بھی آپ کو دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے سہارے سے سنبھالنا پڑتا تھا۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول رویت نمبر 187 صفحہ 198)
انگلی کاٹ ڈالی
خاکسار کے ماموں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ گھر میں ایک مرغی کے چوزہ کے ذبح کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اور اس وقت گھر میں کوئی اور اس کام کو کرنے والا نا تھا اس لئے حضرت صاحب اس کو ہاتھ میں لے کر خود ذبح کرنے لگے مگر بجائے چوزہ کی گردن پر چھری پھیرنے کے غلطی سے اپنی انگلی کاٹ ڈالی، جس سے بہت خون بہہ گیا اور آپ توبہ توبہ کرتے ہوئے چوزہ کو چھوڑ کر اٹھ گئے۔ پھر وہ چوزہ کسی اور نے ذبح کیا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی عادت تھی کہ جب کوئی چوٹ وغیرہ اچانک لگتی تو جلدی جلدی توبہ توبہ کے الفاظ منہ سے فرمانے لگ جاتے تھے۔۔۔الخ(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد دوم روایت نمبر 307 صفحہ 285)
ایک لطیفہ
بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب سناتے تھے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک دفعہ بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ میں گھر میں آیا اور بغیر کسی سے پوچھنے کہ ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کر منہ میں ڈال لی۔ بس پھر کیا تھا میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھر ا تھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یاد آیا کہ ایک دفعہ گھر میں میٹھی روٹیاں پکیں کیونکہ حضرت صاحب کو میٹھی روٹی پسند تھی جب حضرت صاحب کھانے لگے تو آپ نے اس کا ذائقہ بدلہ ہوا پایا۔ مگر آپ نے اس کا خیال نہ کیا کچھ اور کھانے پر حضرت صاحب نے کڑواہٹ محسوس کی اور والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ روٹی کڑوی معلوم ہوتی ہے؟ والدہ صاحبہ نے پکانے والی سے پوچھا تو اس نے کہا میں تو میٹھا ڈالا تھا والدہ صاحبہ نے پوچھا کہ کہاں سے لے کر ڈالا تھا؟ وہ برتن لاؤ۔ وہ عورت ایک ٹین کا ڈبہ اٹھا لائی۔ دیکھا تو معلوم ہوا کہ کونین کا ڈبہ تھا اور اس عورت نے جہالت سے بجائے میٹھے کے روٹیوں میں کونین ڈال دی تھی۔ اس دن گھر یہ بھی ایک لطیفہ ہو گیا۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 225 روایت نمبر 244)
ماں کا نافرمان مرزا قادیانی
بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ بعض بوڑھی عورتوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ بچپن میں حضرت صاحب نے اپنی والدہ سے روٹی کے ساتھ کچھ کھانے کو مانگا انہوں نے کوئی چیز شاید گڑ بتایا کہ یہ لے لو۔ حضرت نے کہا نہیں۔ یہ میں لیتا انہوں نے کوئی اور چیز بتائی۔ حضرت صاحب نے اس پر بھی وہی جواب دیا۔ وہ اس وقت کسی بات پر چڑی ہوئی بیٹھی تھیں۔ سختی سے کہنے لگیں کہ جاؤ پھر راکھ سے روٹی کھا لو۔ حضرت صاحب روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گئے اور گھر میں ایک لطیفہ ہو گیا۔ یہ حضرت صاحب کے پچپن کا واقع ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ نے یہ واقع سنا کر کہا کہ جس وقت اس عورت نے مجھے یہ بات سنائی تھی اس وقت حضرت صاحب بھی پاس مگر آپ خاموش رہے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 225-226 روایت نمبر 245)
مٹی اور گڑ کے ڈھیلے
آپ کو شیرینی سے بہت پیار تھا اور مرض بول بھی عرصہ سے آپ کو لگی ہوئی تھی۔ اس زمانہ میں آپ مٹی کے ڈھیلے بعض وقت جیب میں ہی رکھتے تھے اور اسی جیب میں گڑ کے ڈھیلے بھی رکھ لیا کرتے تھے۔(مسیح موعود کے مختصر حالات ملحقہ براہین احمدیہ طبع چہارم صفحہ 67 مرتبہ معراج الدین عمر قادیانی)
سندھی، دسوندی، چڑا مار مسیح
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ تمہاری دادی ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھیں۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم اپنی والدہ کے ساتھ بچپن میں کئی دفعہ ایمہ گئے ہیں۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہاں حضرت صاحب بچپن میں چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور چاقو نہیں ملتا تو سرکنڈے سے ذبح کر لیا کرتے تھے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ایک دفعہ ایمہ سے چند بوڑھی عورتیں آئیں تو انہوں نے باتوں باتوں میں کہا سندھی ہمارے گاؤں چڑیاں پکڑا کرتا تھا۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نہ سمجھ سکی کہ سندھی سے کون مراد ہے۔ آخر معلوم ہوا کہ ان کی مراد حضرت صاحب سے ہے۔ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ دستور ہے کہ کسی منت ماننے کے نتیجے میں بعض لوگ خصوصاً عورتیں اپنے کسی بچے کا عرف سندھی رکھ دیتے ہیں۔ چنانچہ اسی وجہ سے آپ کی والدہ اور بعض عورتیں آپ کو بچپن میں کبھی اس لفظ سے پکار لیتی تھیں۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ سندھی غالباً دسوندی یا دسبندھی سے بگڑا ہوا ہے جو ایسے بچے کو کہتے ہیں جس پر کسی منت کے نتیجے میں دس دفعہ کوئی چیز باندھی جاوے اور بعض منت کوئی نہیں ہوتی بلکہ یونہی پیار سے عورتیں اپنے کسی بچے پر یہ رسم ادا کر کے اسے سندھی پکارنے لگ جاتی ہیں۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 41 روایت نمبر 51)
پینشن چور مسیح
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود(اس کی نظر میں مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) تمہارے دادا کی پینشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا۔ جب آپ نے پینشن وصول کر لی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور اِدھر اُدھر پھراتا رہا۔ پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ حضرت صاحب اس شرم سے واپس گھر نہیں آئے ۔ اور چونکہ تمہارے دادا کا منشاء رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں اس لئے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ ہر ملازم ہو گئے اور کچھ عرصہ ملازمت کی۔ پھر جب تمہاری دادی بیمار ہوئیں تو تمہارے داد نے آدمی بھیجا کہ ملازمت چھوڑ کر آ جاؤ جس پر حضرت صاحب فوراً روانہ ہو گئے۔۔۔۔والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہمیں چھوڑ کر پھر مرزا امام الدین اِدھر اُدھر پھراتا رہا۔ آخر اس نے چائے کے ایک قافلہ پر ڈاکہ مارا اور پکڑا گیا مگر مقدمہ میں رہا ہو گیا۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہماری(”خدمت خاص“ کی) وجہ سے ہی اسے قید سے بچا لیا ورنہ خواہ وہ خود کیسا ہی آدمی تھا، ہمارے مخالف یہی کہتے کہ ان کا ایک چچا زاد بھائی جیل خانہ میں رہ چکا ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کی سیالکوٹ کی ملازمت 1864ء تا 1868ء کا واقع ہے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 38-39 روایت نمبر 49)
مختاری کے امتحان میں فیل
چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے اس لیے واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کر دی۔ اور قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا پر امتحان میں کامیاب نہ ہوے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 142 روایت نمبر 150)
غرارہ
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) اوائل میں غرارے استعمال فرمایا کرتے تھے۔ پھر میں نے کہہ کر وہ ترک کروا دیئے۔ اس کے بعد آپ معمولی پاجامے استعمال کرنے لگے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ غرارہ بہت کھلے پائنچے کے پاجامے کو کہتے ہیں۔(پہلے اسکا ہندوستان میں بہت رواج تھا اب بہت کم ہو گیا ہے)۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 59-60 رویت نمبر 82)
مرزا کا کلمہ
ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح اول(حکیم نور الدین) فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کا ایک کلمہ ہوتا ہے۔ مرزا کا کلمہ یہ ہے کہ ”میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔“(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 824 روایت نمبر 974)
قادیانی تیمم
ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کو اگر تیمم کرنا ہوتا تو بسا اوقات تکیہ یا لحاف پر ہی ہاتھ مار کر تیمم کر لیا کرتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ تکیہ یا لحاف میں سے جو گرد نکلتی ہے، وہ تیمم کی غرض سے کافی ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی تکیہ لحاف بالکل نیا ہو اور اس میں کوئی گر نہ ہو تو پھر اس سے تیمم جائز نہ ہو گا۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 774-775 رویت نمبر 878)
قادیانی مسیح کے اعلیٰ اخلاق کی ایک مثال
میرے گھر سے یعنی والدہ عزیز مظفر احمد نے مجھے سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) عموماً گرم پانی سے طہارت فرمایا کرتے تھے اور ٹھنڈے پانی کو استعمال نہ کرتے تھے۔ ایک دن آپ نے کسی خادمہ سے فرمایا کہ آپ کے لئے پاخانہ میں لوٹا رکھ دے۔ اس نے غلطی سے تیز گرم پانی کا لوٹا رکھ دیا۔ جب حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) فارغ ہو کر باہر تشریف لائے تو دریافت فرمایا کہ لوٹا کس نے رکھا تھا۔ جب بتایا گیا کہ فلاں خادمہ نے رکھا تھا تو آپ نے اُسے بلوایا اور اُسے اپنا ہاتھ آگے کرنے کو کہا۔ اور پھر اس کے ہاتھ پر آپ نے لوٹے کا بچا ہوا پانی بہا دیا تاکہ اسے احساس ہو کہ یہ پانی اتنا گرم ہے کہ طہارت میں استعمال نہیں ہو سکتا۔ اس کے سوا آپ نے اسے کچھ نہیں کہا۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 758 روایت نمبر 847)
عورتوں کا امام
باہر مردوں میں نماز باجماعت ہونے کے علاوہ آخری سالوں میں حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) ایک بہت بڑے عرصہ تک اندر عورتوں میں پیش امام ہو کر مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک لمبے عرصہ تک جمع کراتے رہے۔(ذکر حبیب صفحہ 65 از مفتی محمد صادق قادیانی)
زنانہ نماز
ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کو میں نے بار ہا دیکھا کہ گھر میں نماز پڑھاتے تو حضرت ام المومنین(لعنت اللہ علیھا) کو اپنے دائیں جانب بطور مقتدی کے کھڑا کر لیتے۔ حالانکہ مشہور فقہی مسئلہ یہ ہے کہ خواہ عورت اکیلی ہی مقتدی ہو تب بھی اسے مرد کے ساتھ نہیں بلکہ الگ پیچھے کھڑا ہونا چاہیے۔ ہاں اکیلا مرد مقتدی ہو تو اسے امام کے ساتھ دائیں طرف کھڑا ہونا چاہیے۔ میں نے حضرت ام المومنین(لعنت اللہ علیھا) سے پوچھا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ حضرت صاحب نے مجھ سے یہ بھی فرمایا تھا کہ مجھے بعض اوقات کھڑے ہو کر چکر آ جایا کرتا ہے اس لیے تم میرے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھ لیا کرو۔ (سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 636-637 روایت نمبر 696)
یعنی کہ؎
دیوارِ خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے
یعنی کہ؎
دیوارِ خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے
نماز میں فارسی نظم
ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ گرمیوں میں مسجد مبارک میں مغرب کی نماز پیر سراج الحق صاحب نے پڑھائی۔ حضور(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) بھی اس نماز میں شامل تھے۔ تیسری رکعت میں رکوع کے بعد انہوں نے بجائے مشہور دعاؤں کے حضور(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کی ایک فارسی نظم پڑھی جس کا یہ مصرعہ ہے
”اے خدا اے چارہ آزارما“
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ فارسی نظم اعلیٰ درجہ کی مناجات ہے جو روحانیت سے پُر ہے۔۔۔الخ(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 644 روایت نمبر 707)
(زہن میں رہے مرزا قادیانی نے اس پر سکوت کیا یعنی اصلاح نہیں کی کہ نظم نہیں پڑھنی چاہیے تھی)
”اے خدا اے چارہ آزارما“
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ فارسی نظم اعلیٰ درجہ کی مناجات ہے جو روحانیت سے پُر ہے۔۔۔الخ(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 644 روایت نمبر 707)
(زہن میں رہے مرزا قادیانی نے اس پر سکوت کیا یعنی اصلاح نہیں کی کہ نظم نہیں پڑھنی چاہیے تھی)
نماز میں پان
ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کو سخت کھانسی ہوئی، ایسی کہ دم نہ آتا تھا۔ البتہ پان رکھ کر قدرے آرام معلوم ہوتا تھا۔ اس وقت آپ نے اس حالت میں پان منہ میں رکھے رکھے نماز پڑھی تاکہ آرام سے پڑھ سکیں۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 605-606 روایت نمبر 638)
بیٹے کی خاطر نماز جمعہ نہیں پڑھی
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرض الموت کے ایام میں ایک جمعہ کے دن حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) حسب معمول کپڑے بدل کر عصا ہاتھ میں لے کر جماعہ مسجد کو جانے کے واسطے تیار ہوئے۔ جب صاحبزادہ کی چار پائی کے پاس سے گذرتے ہوئے ذرا کھڑے ہو گئے تو صاحبزادہ صاحب نے حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کا دامن پکڑا لیا اور اپنی چارپائی پر بیٹھا دیا اور اٹھنے نہ دیا۔ صاحبزادہ صاحب کی خاطر حضور بیٹھے رہے اور جب دیکھا کہ بچہ اٹھنے نہیں دیتا اور جمعہ کے وقت میں دیر ہوتی ہے تو حضور نے کہلا بھیجا کہ جمعہ پڑھ لیں اور حضور کا انتظار نہ کریں۔ (ذکر حبیب صفحہ 172 از مفتی محمد صادق قادیانی)
روزہ توڑ دیا
ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) نے رمضان کا روزہ رکھا ہوا تھا کہ دل گھٹنے کا دورہ ہوا اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے۔ اس وقت غروب آفتاب کا وقت بہت قریب تھا مگر آپ نے فوراً روزہ توڑ دیا۔ آپ ہمیشہ شریعت میں سہل راستہ کو اختیار فرمایا کرتے تھے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 637 روایت نمبر 697)
روزے نہیں رکھے
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کو دورے پڑھنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا۔ دوسرا رمضان آیا تو آپ نے روزے رکھنے شروع کئے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ ہوا اس لئے باقی چھوڑ دیئے اور فدیہ ادا کر دیا۔ اس کے بعد رمضان آیا تو اس میں آپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑھے اور آپ نے فدیہ ادا کر دیا۔ اس کے بعد جو رمضان آیا تو آپ کا تیرہواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اور باقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا۔ اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپ نے سب روزے رکھے مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادا کرتے رہے۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتداء دوروں کے زمانے میں روزے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضاء کیا؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا نہیں صرف فدیہ ادا کر دیا تھا۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 59 روایت نمبر 81)
دوسروں کے روزے بھی تڑوا دیئے
ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور سے کچھ احباب رمضان میں قادیان آئے۔ حضرت صاحب کو اطلاع ہوئی تو آپ مع کچھ ناشتہ کے ان سے ملنے کے لیے مسجد میں تشریف لائے۔ ان دوستوں نے عرض کیا کہ ہم سب روزے سے ہیں۔ آپ نے فرمایا سفر میں روزہ ٹھیک نہیں، اللہ تعالیٰ کی رخصت پر عمل کرنا چاہیے۔ چنانچہ ان کو ناشتہ کروا کے ان کے روزے تڑوا دیئے۔ (سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد دوم صفحہ 344-345 روایت نمبر 381)
بے روز مسیح موعود کا احترام رمضان
اس موخر الذکر سفر میں حضور نے لدھیانہ میں ایک لیکچر دیا جس میں ہندو، عیسائی، مسلمان اور بڑے بڑے معزز لوگ موجود تھے۔ تین گھنٹے حضور اقدس نے تقریر فرمائی۔ حالانکہ بوجہ سفر دہلی کچھ طبیعت بھی درست نہ تھی۔ رمضان کا مہینہ تھا اس لیے حضور اقدس نے بوجہ سفر روزہ نہ رکھا تھا۔ اب حضور اقدس نے تین گھنٹہ تقریر جو فرمائی تو طبیعت پر ضعف سا طاری ہوا۔ مولوی محمد احسن صاحب نے اپنے ہاتھ سے دودھ پلایا جس پر نا واقف مسلمانوں نے اعتراضاً کہا کہ مرزا رمضان میں دودھ پیتا ہے اور شور کرنا چاہا۔ لیکن چونکہ پولیس کا انتظام اچھا تھا، فوراً یہ شور کرنے والے مسلمان وہاں سے نکال دیے گئے۔ (سیرت المہدی 1939 ایڈیشن جلد سوم صفحہ 272)
آپ لیکچر گاہ میں اندر تشریف لے گئے اور لیکچر شروع کیا۔ لیکن مولوی صاحبان کو اعتراض کا کوئی موقع نہ ملا جس پر لوگوں کو بھڑکائیں۔ پندرہ منٹ آپ کی تقریر ہو چکی تھی کہ ایک شخص نے آپ کے آگے چائے کی پیالی پیش کی کیونکہ آپ کے حلق میں تکلیف تھی اور ایسے وقت میں اگر تھوڑے تھوڑے وقفہ سے کوئی سیال چیز استعمال کی جائے تو آرام رہتا ہے۔ آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ رہنے دو لیکن اس نے آپ کی تکلف کے خیال سے پیش کر ہی دی۔ اس پر آپ نے بھی اس میں سے ایک گھونٹ پی لیا۔ لیکن وہ مہینہ روزوں کا تھا۔ مولویوں نے شور مچا دیا کہ یہ شخص مسلمان نہیں کیونکہ رمضان شریف میں روزہ نہیں رکھتا۔(سیرت مسیح موعود صفحہ 55-56 از مرزا بشیر الدین محمود)
آپ لیکچر گاہ میں اندر تشریف لے گئے اور لیکچر شروع کیا۔ لیکن مولوی صاحبان کو اعتراض کا کوئی موقع نہ ملا جس پر لوگوں کو بھڑکائیں۔ پندرہ منٹ آپ کی تقریر ہو چکی تھی کہ ایک شخص نے آپ کے آگے چائے کی پیالی پیش کی کیونکہ آپ کے حلق میں تکلیف تھی اور ایسے وقت میں اگر تھوڑے تھوڑے وقفہ سے کوئی سیال چیز استعمال کی جائے تو آرام رہتا ہے۔ آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ رہنے دو لیکن اس نے آپ کی تکلف کے خیال سے پیش کر ہی دی۔ اس پر آپ نے بھی اس میں سے ایک گھونٹ پی لیا۔ لیکن وہ مہینہ روزوں کا تھا۔ مولویوں نے شور مچا دیا کہ یہ شخص مسلمان نہیں کیونکہ رمضان شریف میں روزہ نہیں رکھتا۔(سیرت مسیح موعود صفحہ 55-56 از مرزا بشیر الدین محمود)
حج، اعتکاف، ذکوۃ
ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) نے حج نہیں کیا اور نہ اعتکاف کیا اور ذکوۃ نہیں دی ، تسبیح نہیں رکھی ، میرے سامنے ضب یعنی گوہ کھانے سے انکار کیا ۔ صدقہ نہیں کھایا۔ ذکوۃ نہیں کھائی۔ صرف نذرانہ اور ہدیہ قبول فرماتے تھے۔ پِیروں کی طرح مصلی اور خرقہ نہیں رکھا۔ رائج الوقت درود و وظائف مثلاً پنچ سورہ۔ دعائے گنج العرش۔ درود تاج۔ حزب البحر۔ دعائے سریانی وغیرہ نہیں پڑھتے تھے۔۔۔۔اور ذکوۃ اس لیے نہیں دی کے آپ کبھی صاحبِ نصاب نہیں ہوئے۔ البتہ حضرت والدہ صاحبہ زیور پر ذکوۃ دیتی رہی ہیں اور تسبیح اور رسمی وظائف کے آپ قائل ہی نہیں تھے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 623-624 روایت نمبر 672)
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ میں نے کبھی حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کا اعتکاف بیٹھے نہیں دیکھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ سنوری نے بھی مجھ سے یہی بیان کیا۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 62 روایت نمبر 86)
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ میں نے کبھی حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کا اعتکاف بیٹھے نہیں دیکھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ سنوری نے بھی مجھ سے یہی بیان کیا۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 62 روایت نمبر 86)
مردہ اسلام
ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر عبد الحکیم خان مرتد بڑا خواب بین شخص تھا۔ اس کے دماغ کی بناوٹ ہی ایسی تھی کہ ذرا اونگھ آئی اور خواب آیا یا الہام ہوا۔ وہ یا تو ابتداء زمانہ طالب علمی میں قادیان آیا کرتا تھا یا پھر ایک مدت دراز کے بعد لمبی رخصت لے کر قادیان آیا اور یہاں وہ حضرت صاحب کو ہر روز مغرب و عشاء کے درمیان اپنی تفسیر سنایا کرتا تھا اور داد چاہتا تھا۔ جو جو باتیں اور عقائد اور اعتراض عبدالحکیم خاں نے مرتد ہوتے وقت بیان کئے ہیں وہ سب آج کل غیر مبایعین میں موجود ہیں۔ دراصل ان لوگوں کو اس نے ہلاک کیا اور خود اس کو اس کی خواب بینی اور بلعمی صفات نے ہلاک کیا۔ چنانچہ ایک دفعہ ان لوگوں نے یہ تجویز پیش کی کہ ریویو میں حضرت صاحب کا اور احمدیت کی خصوصیات کا ذکر نہ ہو بلکہ عام اسلامی مضامین ہوں تاکہ اشاعت زیادہ ہو۔ اخبار وطن میں بھی یہ تحریر چھی تھی۔ جس پر حضرت صاحب نے نہایت ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور فرمایا تھا کہ ہمیں چھوڑ کر کیا آپ مردہ اسلام کو پیش کریں گے؟ عبدالحکیم خاں نے حضور کو لکھا تھا کہ اپ کا وجود خادم اسلام ہے نہ کہ عین اسلام۔ مگر حضرت صاحب نے اس فقرہ کی تردید کر دی کہ دراصل آپ کا وجود ہی روح اسلام ہے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 619-620 روایت نمبر 665)
بےہوش مسیح کے جیب میں اینٹ
آپ کے ایک بچے نے آپ کی واسکٹ کی ایک جیب میں ایک بڑی اینٹ ڈال دی۔ اپ جب لیٹتے تو وہ اینٹ چبتی۔ کئی دن ایسا ہی ہوتا رہا۔ ایک دن اپنے ایک خادم کو کہنے لگے کہ میری پسلی میں درد ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز چبتی ہے۔ وہ حیران ہوا اور آپ کے جسد مبارک(لعین) پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ اس کا ہاتھ اینٹ پر جا لگا۔ جھٹ جیب سے نکال لی۔ دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ چند روز ہوئے محمود نے میرے جیب میں ڈالی تھی اور کہا تھا اس کو نکالنا نہیں۔(مسیح موعود کے مختصر حالات ملحقہ براہین احمدیہ طبع چہارم صفحہ 53 مرتبہ معراج الدین عمر قادیانی)
جرابیں، گرگابی پہننے کا مرزائی طریقہ
ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) اپنی جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضور جراب پہنتے تھے تو بے توجہی کے عالم میں اسکی ایڑی پاؤں کے تلوے کی بجائے اوپر کی طرف ہو جاتی تھی اور بار ہا ایک کاج کا بٹن دوسرے کاج میں لگا ہوتا تھا اور بعض اوقات کوئی دوست حضور کے لیے گرگابی لاتا آپ بسا اوقات دایاں پاؤں بائیں میں ڈال لیتے تھے اور بایاں پاؤں دائیں میں ۔ چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتی پہنتے تھے اسی طرح کھانا کھانے کا یہ حال تھا کہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو اس وقت پتہ لگتا ہے کہ کیا کھا رہے ہیں جب کھاتے کھاتے کوئی کنکر وغیرہ کا ریزہ دانت کے نیچے آ جاتا۔ (سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد دوم صفحہ 344 روایت نمبر 378)
الٹے کاج پنجابی مسیح کی سنت؟
بار ہا دیکھا گیا کہ بٹن اپنا کاج چھوڑ کر دوسرے ہی میں لگے ہوتے تھے بلکہ صدری کے بٹن کوٹ کے کاجوں میں لگائے گئے دیکھے گئے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد دوم صفحہ 417 رویت نمبر 447)
الٹی سیدھی گرگابی اور جرابیں
ایک دفعہ کوئی شخص آپ کے لئے گرگابی لے آیا اور آپ نے پہن لی مگر اسکے الٹے سیدھے پاؤں کا آپ کو پتہ نہیں لگتا تھا کئی دفعہ الٹا پہن لیتے تھ اور پھر تکلیف ہوتی تھی۔ بعض دفعہ آپ کا الٹا پاؤں پڑ جاتا تو تنگ ہو کر فرماتے، ان(انگریز) کی کوئی چیز بھی اچھی نہیں ہے۔ (یہاں تک کے انگریزوں سے کوئی ڈھنگ کا ”نبی“ بھی نامزد نہ ہو سکا٭)والدہ صاحبہ فرمایا کہ میں نے آپ کی سہولت کے واسطے الٹے سیدھے پاؤں کی شناخت کے لئے نشان لگا دیے تھے باوجود اسکے آپ الٹے سیدھے پہن لیتے تھے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 60 روایت نمبر 83)
مگر بار ہا جراب اس طرح پہن لیتے کہ پیر پر ٹھیک سے نہ چڑھتی۔ کبھی تو سرا آگے لٹکتا رہتا اور کبھی جراب کی ایڑی کی جگہ پیر کی پشت پر آ جاتی کبھی ایک جراب سیدھی اور دوسری الٹی۔ اگر ایک جراب کہیں سے پھٹ جاتی تو بھی مسح جائز رکھتے ۔۔۔۔جوتی اگر تنگ ہوتی تو ایڑی پھٹا لیتے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد دوم صفحہ 418 روایت نمبر 447)
مگر بار ہا جراب اس طرح پہن لیتے کہ پیر پر ٹھیک سے نہ چڑھتی۔ کبھی تو سرا آگے لٹکتا رہتا اور کبھی جراب کی ایڑی کی جگہ پیر کی پشت پر آ جاتی کبھی ایک جراب سیدھی اور دوسری الٹی۔ اگر ایک جراب کہیں سے پھٹ جاتی تو بھی مسح جائز رکھتے ۔۔۔۔جوتی اگر تنگ ہوتی تو ایڑی پھٹا لیتے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد دوم صفحہ 418 روایت نمبر 447)
کھانے کا طریقہ
کھانا کھاتے ہوئے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر لیے جاتے تھے، کچھ کھاتے، کچھ چھوڑ دیتے تھے۔ کھانے کے بعد آپ کے سامنے سے بہت سے ریزے اٹھتے تھے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 45 روایت نمبر 56)
ریشمی ازار بند اور اس کا فائدہ اور چابیوں کی حفاظت کا مرزائی طریقہ
چابیاں ازار بند کے ساتھ باندھتے تھے جو بوجھ سے بعض اوقات لٹک آتا تھا۔ والدہ صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) عموماً ریشمی ازار بند استعمال فرماتے تھے کیونکہ آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا اس لیے ریشمی ازار بند رکھتے تھے تاکہ کھلنے میں آسانی ہو اور گرہ بھی پڑ جاوے تو کھولنے میں دقت نہ ہو۔ سوتی ازار بند میں آپ سے بعض وقت گرہ پڑ جاتی تھی تو آپ کو بڑی تکلیف ہوتی تھی۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 49 روایت نمبر 65)
ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کے پاجاموں میں، میں نے اکثر ریشمی ازار بند پڑا ہوا دیکھا ہے اور ازار بند میں کنجیوں کا گچھا بندھا ہوتا تھا۔ ریشمی ازار بند کے متعلق بعض اوقات فرماتے تھے کہ ہمیں پیشاب کثرت سے اور جلدی جلدی آتا ہے تو ایسے ازار بند کے کھولنے میں بہت آسانی ہوتی ہے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 614 روایت نمبر 652)
ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کے پاجاموں میں، میں نے اکثر ریشمی ازار بند پڑا ہوا دیکھا ہے اور ازار بند میں کنجیوں کا گچھا بندھا ہوتا تھا۔ ریشمی ازار بند کے متعلق بعض اوقات فرماتے تھے کہ ہمیں پیشاب کثرت سے اور جلدی جلدی آتا ہے تو ایسے ازار بند کے کھولنے میں بہت آسانی ہوتی ہے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 614 روایت نمبر 652)
مرزائی گھڑی کیسے دیکھے؟
بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت صاحب کو ایک جیبی گھڑی تحفہ دی۔ حضرت صاحب اس کو رومال میں باندھ کر جیب میں رکھتے تھے زنجیر نہیں لگاتے تھے۔ اور جب وقت دیکھنا ہوتا تو گھڑی نکال کر ایک ہندسے سے یعنی عدد سے گِن کر وقت کا پتہ لگاتے تھے اور انگلی رکھ رکھ کر ہندسے گنتے تھے اور منہ سے بھی گنتے جاتے تھے اور گھڑی دیکھتے ہی وقت نہ پہچان سکتے تھے۔ میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ آپ کا جیب سے گھڑی نکال کر اس طرح وقت شمار کرنا مجھے بہت ہی پیارا معلوم ہوتا تھا۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 165 روایت نمبر 165)
پیشہ نبوت
18 جنوری 1905ء کو جبکہ میں قادیان کے ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر تھا، میں نے حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کی خدمت بابرکت میں ایک رقعہ لکھا تھا جس کا اصل بمعہ جواب درج کرنا مناسب ہے۔ امید ہے کہ ناظرین کی دلچسپی کا موجب ہو گا۔
رقعہ: بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
رقعہ: بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
حضرت اقدس مرشد و مہدینا مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ صاحبزادہ میاں محمود کا نام برائے امتحان(مڈل) ارسال کیا جائے گا۔ جس فارم کی خانہ پری کرنی ہے اس میں ایک خانہ ہے ؛کہ اس لڑکے کا باپ کیا کام کرتا ہے؟ میں نے وہاں لفظ نبوت لکھا ہے۔(ذکر حبیب صفحہ 244-245 از مفتی محمد صادق قادیانی)
پہرہ پنجابی مسیح؟
مائی رسول بی بی صاحبہ بیوہ حامد علی صاحب مرحوم نے بواسطہ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں مَیں اور اہلیہ بابوشاہ دین رات کا پہرہ دیتی تھیں اور حضرت صاحب نے فرمایا ہوا تھا کہ اگر میں سوتے میں کوئی بات کیا کروں تو مجھے جگا دیا کرو ۔ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں نے آپ کی زبان پر کوئی لفظ جاری ہوتے ہوئے سنے اور آپ کو جگا دیا اس وقت رات کے بارہ بجے تھے ان ایام میں عام طور پر پہرہ پرمائی فجو منشیانی اہلیہ منشی محمد دین گوجرانوالہ اور اہلیہ بابو شاہ دین ہوتی تھیں ۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 725 روایت نمبر 786)
شرمندہ مسیح
ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھ سے میری لڑکی زینب نے بیان کیا کہ میں تین ما ہ کے قریب حضرت اقدس (مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کی خدمت میں رہی ہوں ۔ گرمیوں میں پنکھا وغیرہ اور اسی طرح کی خدمت کرتی تھی بسا اوقات ایسا ہوتا کہ نصف رات یا اس سے زیادہ مجھ کو پنکھا ہلاتے گزر جاتی تھی مجھ کو اس اثناء میں کسی قسم کی تھکان اور تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی بلکہ خوشی سے دل بھر جاتا تھا دو دفعہ ایسا موقع پیش آیا کہ عشاء کی نماز سے لے کر صبح کی اذان تک مجھے ساری رات خدمت کرنے کا موقع ملا پھر بھی اس حالت میں مجھ کو نہ نیند نہ غنودگی اور تھکان معلوم ہوتی بلکہ خوشی اور سرور پیدا ہوتا تھا ۔اسی طرح جب مبارک احمد صاحب بیمار ہوئے تو مجھ کو ان کی خدمت کے لئے بھی اسی طرح راتیں گذارنی پڑیں۔ حضور نے فرمایا کہ زینب اس قدر خدمت کرتی ہے کہ ہمیں اس سے شرمندہ ہونا پڑتا ہے ۔ اور آپ کئی دفعہ اپنا ”تبرک“ مجھے دیا کرتے تھے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 789-790 روایت نمبر 910)
بھانو کی حس کمزور ہو رہی ہے
ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت ام المؤمنین نے ایک دن سنایا کہ حضرت صاحب کے ہاں ایک بوڑھی ملازمہ مسماۃ بھانو تھی وہ ایک رات جبکہ خوب سردی پڑرہی تھی حضور کو دبانے بیٹھی چونکہ وہ لحاف کے اوپر سے دباتی تھی اس لیے اسے یہ پتہ نہ لگا کہ جس چیز کو میں دبا رہی ہوں وہ حضور کی ٹانگیں نہیں بلکہ پلنگ کی پٹی ہے تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا بھانو آج بڑی سردی ہے ۔ بھانو کہنے لگی ’’ جی ہاں تدے تے تہاڈی لتاں لکڑی وانگوں ہویاں ہویاں نیں ‘‘ یعنی جبھی تو آپ کی لاتیں لکڑی کی طرح سخت ہو رہی ہیں ۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 722 روایت نمبر 780)
لڑکی کیسی ہو؟َ
بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ صاحب سنوری نے کہ مدت کی بات ہے کہ جب میاں ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی پہلی بیوی فوت ہو گئی اور ان کو دوسری بیوی کی تلاش ہوئی تو ایک دفعہ حضرت صاحب نے ان کو کہا کہ ہمارے گھر میں دو لڑکیاں رہتی ہیں میں ان کو لاتا ہوں آپ ان کو دیکھ لیں پھر ان میں سے جو آپ کو پسند ہو اس سے آپ کی شادی کر دی جائے ۔ چنانچہ حضرت صاحب گئے ان دو لڑکیوں کو بلا کر کمرہ کے باہر کھڑا کر دیا اور پھر اندر آ کر کہا کہ وہ باہر کھڑی ہیں آپ چک کے اندر سے دیکھ لیں چنانچہ میاں ظفر احمد صاحب نے ان کو دیکھ لیا پھر حضر ت صاحب نے ان کو رخصت کر دیا اس کے بعد میاں ظفر صاحب سے پوچھنے لگے کہ آپ کو کون سی لڑکی پسند ہے وہ نام تو کسی کا جانتے نہیں تھے اس لیے انہوں نے کہا کہ جس کا منہ لمبا ہے وہ اچھی ہے اس کے بعد حضرت صاحب نے میری رائے لی میں نے عرض کیا کہ حضور میں نے تو نہیں دیکھا پھر خود فرمانے لگے کہ میرے خیال میں تو دوسری لڑکی بہتر ہے جس کا منہ گول ہے پھر فرمایا جس شخص کا چہرہ لمبا ہوتا ہو وہ بیماری وغیرہ کے بعد عموماً بدنما ہو جاتا ہے لیکن گول چہرہ کی خوبصورتی قائم رہتی ہے ۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 240-241 روایت نمبر 268)
ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم اے لاہور کی پہلی شادی حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) نے گورداسپور میں کرائی تھی۔ جب رشتہ ہونے لگا تو لڑکی کو دیکھنے کے لئے حضور نے ایک عورت کو گورداسپور بھیجا تا کہ وہ آ کر رپورٹ کرے کہ لڑکی صورت و شکل وغیرہ میں کیسی ہے اور مولوی صاحب کے لئے موزوں بھی ہے یا نہیں۔ چنانچہ وہ عورت گئی۔ جاتے ہوئے اس ے ایک یاداشت لکھ کر دی گئی۔ یہ کاغذ میں نے لکھا تھا اور حضرت صاحب نے بمشورہ حضرت ام المومنین(لعنت اللہ علیہا) لکھوایا تھا۔ اس میں مختلف باتیں نوٹ کرائی تھیں۔ مثلاً یہ کہ لڑکی کا رنگ کیسا ہے۔ قد کتنا ہے۔ اس کی آنکھوں میں کوئی نقص تو نہیں، ناک، ہونٹ، گردن، دانت، چال ڈھال وغیرہ کیسے ہیں۔ غرض بہت ساری باتیں ظاہری شکل و صورت کے متعلق لکھوا دیں تھیں کہ ان کی بابت خیال رکھے اور دیکھ کر واپس آ کر بیان کرے۔ جب وہ عورت واپس آئی اور اس نے ان سب باتوں کی بابت اچھا یقین دلایا تو رشتہ ہو گیا......خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی تاکید فرمایا کرتے تھے کہ شادی سے پہلے لڑکی کو دیکھ کر تسلی کر لینی چاہیے کہ کوئی نقص نہ ہو۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک مہاجر صحابی کو جو ایک انصاری لڑکی سے شادی کرنے لگا تھا فرمایا کہ لڑکی کو دیکھ لینا، کیونکہ انصاری لڑکیوں کی آنکھ میں عموماً نقص ہوتا ہے۔۔۔الخ(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 814-815 روایت نمبر954)
ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم اے لاہور کی پہلی شادی حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) نے گورداسپور میں کرائی تھی۔ جب رشتہ ہونے لگا تو لڑکی کو دیکھنے کے لئے حضور نے ایک عورت کو گورداسپور بھیجا تا کہ وہ آ کر رپورٹ کرے کہ لڑکی صورت و شکل وغیرہ میں کیسی ہے اور مولوی صاحب کے لئے موزوں بھی ہے یا نہیں۔ چنانچہ وہ عورت گئی۔ جاتے ہوئے اس ے ایک یاداشت لکھ کر دی گئی۔ یہ کاغذ میں نے لکھا تھا اور حضرت صاحب نے بمشورہ حضرت ام المومنین(لعنت اللہ علیہا) لکھوایا تھا۔ اس میں مختلف باتیں نوٹ کرائی تھیں۔ مثلاً یہ کہ لڑکی کا رنگ کیسا ہے۔ قد کتنا ہے۔ اس کی آنکھوں میں کوئی نقص تو نہیں، ناک، ہونٹ، گردن، دانت، چال ڈھال وغیرہ کیسے ہیں۔ غرض بہت ساری باتیں ظاہری شکل و صورت کے متعلق لکھوا دیں تھیں کہ ان کی بابت خیال رکھے اور دیکھ کر واپس آ کر بیان کرے۔ جب وہ عورت واپس آئی اور اس نے ان سب باتوں کی بابت اچھا یقین دلایا تو رشتہ ہو گیا......خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی تاکید فرمایا کرتے تھے کہ شادی سے پہلے لڑکی کو دیکھ کر تسلی کر لینی چاہیے کہ کوئی نقص نہ ہو۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک مہاجر صحابی کو جو ایک انصاری لڑکی سے شادی کرنے لگا تھا فرمایا کہ لڑکی کو دیکھ لینا، کیونکہ انصاری لڑکیوں کی آنکھ میں عموماً نقص ہوتا ہے۔۔۔الخ(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 814-815 روایت نمبر954)
چنبیلی کی بوتل
ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ)کی اولاد میں آپ کی لڑکی عصمت ہی صرف ایسی تھی جو قادیان سے باہر پیدا ہوئی اور باہر ہی فوت ہوئی۔ اس کی پیدائش انبالہ چھاؤنی کی تھی اور فوت لدھیانہ میں ہوئی۔ اسے ہیضہ تھا۔ اس لڑکی کو شربت پینے کی عادت پڑھ گئی تھی۔ یعنی وہ شربت کو پسند کرتی تھی۔ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) اس کے لئے شربت کی بوتل ہمیشہ اپنے پاس رکھا کرتے تھے۔ رات کو وہ اٹھا کرتی تو کہتی ابا شربت پینا۔ آپ فوراً اٹھ کر شربت بنا کر اسے پلا دیا کرتے تھے۔ ایک روز لدھیانہ میں اس نے اسی طرح رات کو اٹھ کر شربت مانگا۔ حضرت صاحب نے اسے شربت کی جگہ غلطی سے چنبیلی کا تیل پلا دیا۔ جس کی بوتل اتفاقاً شربت کی بوتل کے پاس ہی پڑی تھی۔ لڑکی بھی وہ ”شربت“ پی کر سو گئی۔ صبح جب تیل کم اور گلاس چکنا دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ غلطی ہو گئی ہے مگر خدا کے فضل سے نقصان نہیں ہوا۔۔۔۔الخ (سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 775 روایت نمبر 879)
پیچش کی موت
ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کو اپنی وفات سے قبل سالہا سال اسہال کا عارضہ رہا تھا۔ چنانچہ حضور اسی مرض میں فوت ہوئے۔ بار ہا دیکھا گیا کہ حضور کو دست آنے کے بعد ایسا ضعف ہوتا تھا کہ حضور فوراً دودھ کا گلاس منگوا کر پیتے تھے۔( سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد دوم صفحہ 344 روایت نمبر 379)
اگر آپ اس کو اپنی ویب سائیٹ /بلاگ/ورڈپریس پر لگانا یا اس کو ڈاؤنلوڈ کرنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر تشریف لائیں۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔