Sunday, August 30, 2015

بچوں کیلئے آدھا گھنٹہ، آفس کیلئے ساڑھے بارہ گھنٹہ

0 comments
بچوں کیلئے آدھا گھنٹہ، آفس کیلئے ساڑھے بارہ گھنٹہ

ملکی اور بین الاقوامی پیمانہ پر گذشتہ دنوں لگاتار مخصوص طرح کے جرم پر مبنی خبروں کا تسلسل رہا جن کا تعلق جنسی جرائم کی خبیث ترین شکلوں سے تھا۔ بطور یاد دہانی یاد کیا جاسکتا ہے آسٹریا کے شہر ایمسٹیٹن Amstettenکے قید خانہ میں ایک ابلیس نما انسان نے اپنی سگی بیٹی الزبتھ کو تہہ خانہ میں ۲۴ سال تک قید رکھ کر جنسی تعلقات بنائے اور اس سے (۷) اولادیں ہوئیں۔ یوروپ میں ہی فرانس کے صدر نکولائی سرکوزی اپنی ”گرل فرینڈ“ کو لے کر دنیا بھر میں سرکاری دورہ کرتے رہے۔ ”اعتدال پسند مسلم ملک“ مصر کے رہنماؤں نے انہیں سرکاری آداب اور سہولیات مہیا کرائیں ہمارے یہاں بھی ان عیاش سربراہ حکومت کو آنا تھا اور ہماری حکومت پریشان تھی کہ سرکاری آداب ”پروٹوکول“ Protocolمیں مہمانوں کے خانہ میں ”گرل فرینڈ“ کی کون سی شق پیدا کی جائے۔ کہ سرکوزی نے ہماری حکومت کی خودہی مشکل آسان کردی کہ ”ناجائز“ مہمان کو ساتھ ہی نہیں لائے۔ اس مسئلہ پراخبارات میں خصوصاً ہندی انگریزی پریس میں ہوئی بحث قابل تجزیہ بھی ہے اور آنے والے طوفان کے سگنل بھی دے رہی ہے۔ بے حیائی کی انتہا یہ ہے کہ صدر کی بیوی بننے کے بعد اس نے اپنے ماڈل گرل کے زمانہ کی عریاں فوٹوگراف اخبار کو چند لاکھ ڈالر میں فروخت کردی۔ یہ فوٹو آج فرانس میں سب سے زیادہ مقبول عام ہے۔ ہمارے ملک میں تو شاید اس طرح کے جرائم کی باڑھ آئی ہوئی ہے۔ مقامی خبروں کا کوئی کالم ایسا نہیں ہوگا جہاں جنسی جرائم، استحصال اور بدکاری کی خبیث ترین مثالیں نہ مل جائیں اور مقام عبرت یہ ہے کہ ”خیرامت“ کے افراد ان شیطانی جرائم میں پوری حصہ داری کررہے ہیں۔ یوپی کے جے، پی نگر کی خبر جس میں ایک گریجویٹ مسلم لڑکی نے اپنے عاشق کی مدد سے اپنے ماں باپ سمیت خاندان کے ۶ قریب ترین لوگوں کو زہر دے کر بیہوش کرکے خود فون کرکے عاشق کو بلاکر ۶ قریب ترین افراد کے سرکٹوادئیے۔ اس کے بعد نوئیڈا میں ہوئے آروشی قتل معاملہ کے ضمن میں مقتولہ کے ساتھ ساتھ اس کے والدین کا جو جنسی تعلقات کا ریکارڈ سامنے آرہا ہے وہ پورے سماج کے اندر کیا چل رہا ہے اس کی ہلکی سی تصویر بھر ہے۔ جس بے رحمی کے ساتھ فلمی داکارہ ماریا سوسائی راج نے اپنے ایک عاشق بحریہ کے افسر کے اتھ مل کر اپنے دوسرے عاشق کا قتل کرکے لاش کے ۳۰۰ سے زائدٹکڑے کرکے انہیں پھینکا یہ بھی اسی مجرمانہ جنسی تعلقات اور شیطانی تہذیب کی پکڑ اور اشاعت کو ظاہر کررہا ہے۔ حقوق نسواں اور آزادی نسواں کے فیوض و برکات و ثمرات سامنے آرہے ہیں۔ مطلق آزادی کے نعرہ سے پیدا شدہ سماج کی کریہہ اور گھناؤنی تصویر نظر آرہی ہے، جہاں باپ اپنی سگی بیٹیوں کی عصمت تار تار کررہے ہیں،اور مظفرنگر میں چھ بہنوں نے مل کر اپنے اس ابلیس صفت سگے بھائی کو قتل کردیا جو انہیں باری باری نشہ کے ذریعہ ہوس کا نشانہ بناتا تھا۔ یہ سب مثالیں یا سماج کی اس گندگی پر کچھ کہنا لکھنا کوئی بہت خوش کن کام نہیں ہے، مگر آروشی ہتیا کانڈ کے بعد۔ ایک نرسنگ ہوم کی نرس نے جب یہ بتایا کہ ہمارے شہر کے ایک مقامی معروف سماجی کارکن ہمارے یہاں اپنی بیٹی کو لے کر آئے کہ اسقاط کرانا ہے اندر جب ڈاکٹر نے سختی سے لڑکی سے پوچھ تاچھ کی تو اس نے بتایا کہ جو باریش بزرگ میرے ساتھ ہیں یہ میرے والد ہیں اورمیری کوکھ میں پلنے والی اولاد میرے والد کا ہی نطفہ ہے۔ اور وہ میرے ساتھ یہ شیطانی حرکت بہت تسلسل سے کرتے رہتے ہیں۔ تب راقم السطور کو مجبور ہونا پڑا کہ اس ناسور کو پھیلنے سے روکنے کے لیے جو کچھ بھی ہورہا ہے یا ہوسکتا ہے اس پر ثابت قدمی کے ساتھ، ساتھ دیا جائے قبل اس کے کہ اللہ کا عذاب یا موت مہلت عمل ہی ختم کردے۔ اور آخرت میں ہم یہ عذر بھی پیش کرنے کے لائق نہ رہ جائیں کہ برائی سے اگر بازی نہ لے سکے تو کم سے کم سر تو دے سکے۔

پہلی مثال میں نے آسٹریا Austriaکی دی تھی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ وہی سرزمین ہے جہاں سے موجودہ فحاشی، عریانی اور بے قید جنسی تعلقات کے موجد اولین سگمنڈ فرائڈ نے جنم لیا تھا۔ جس نے انسان پر اور انسانی معاشرہ اور انسانی تاریخ کی جو تعبیر بیان کی تھی وہ صرف یہ تھی کہ صرف جنس Sexمیں ہے جو تمام کاموں اوررجحانوں اور قوانین کا محرک ہے۔ یعنی انسان کا وجود صرف جنس ہی ہے۔ اور آج اس شیطانی مشن کے ثمرات سامنے آرہے ہیں۔ جس کھلے سماج اور بے قید تعلقات کی آبیاری اور پیروی مغربی تہذیب نے پچھلے دو ڈھائی سوسالوں میں کی ہے آج اس نے میخانہ میں پینے کی ہر رسم اٹھادی ہے۔نتیجہ سامنے ہے، یوروپ کے بیشتر ممالک میں سرڈھانک کر پبلک مقامات پر جانا ممنوع قرار دیاگیا ہے۔ برطانیہ میں قانون بنایاگیا ہے کہ gayلوگوں (ہم جنسوں) کو برا بھلا کہنا قانوناً جرم ہے۔ اور امریکہ میں لاکھوں لوگوں نے جلوس نکال کر ہم جنس پرستی کو قانونی شکل اور منظوری دینے کی بات کہی ہے۔ ہمارا ملک اور سماج کس سمت جارہا ہے اوریہ بین الاقوامی جنسی فساد اوراس کے مظاہر کس سمت اشارہ کررہے ہیں یہ سب اب ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ دہلی پولس کے افسر نے بتایا کہ ۲۰۰۷/ میں دہلی میں درج ہوئے عصمت دری کے ۵۸۱ معاملوں میں ٪۹۸ مظلوموں کو ان کے رشتہ داروں نے ہی ہوس کا شکار بنایا۔ ۲۰۰۵/ کے ۶۵۸ عصمت دری کے معاملوں میں ٪۴۹ معاملوں ان کے جان پہچان اور رشتہ داروں نے ہی ہوس کا شکار بنایا۔ (ہندوستان ایکسپریس ۳۰/۴/۲۰۰۸/) اس کے علاوہ اگر آپ دنیا بھر میں جنسی جرائم اور خاندانی تعلقات خصوصاً نکاح اور طلاق کی تعداد پر نظر ڈالیں تو بھی اندازہ ہوگا کہ ہوا کدھر کی بہہ رہی ہے۔ یوروپ کے ۲۷ ملکوں میں سالانہ طلاق کی تعداد تقریباً بارہ لاکھ (۱۲ لاکھ) ہے جبکہ کل آبادی ۱۸ کروڑ کی ہوگی۔ اسی طرح زنا اور جنسی زیادتی کے معاملات سکنڈوں کے حساب سے ہیں۔ برطانیہ میں ہر سال ۱۰-۱۵ کی تعداد میں ۱۲ سال کی عمر کی لڑکیاں حاملہ ہوتی ہیں۔ برطانیہ میں ہر سال (۱۹۳۷۳۷) اسقاط میں سے (۱۷۱۷۳) اسقاط ان لڑکیوں کے ہوتے ہیں جن کی عمر ۱۸سال سے کم ہوتی ہے۔ یوروپ میں ہر ۳۰ سکنڈ میں ایک طلاق اور ہر ۲۷ سکنڈ میں ایک حمل گرایا جارہا ہے۔ (ایجنسیاں ۸/۵/۲۰۰۸/)

غرضیکہ دنیا بھر میں ایک ماحول جو جنسی اشتعال انگیزی اور شہوت انگیزی کا طوفان منظم سازشوں کے نتیجہ میں پیدا کیاگیا ہے اس کے نتائج سامنے آنے شروع ہوگئے ہیں۔ اس کے بیشتر عوامل میں سے ایک نہایت اہم وجہ یہ ہے کہ نئی نسل کی تربیت کے لئے اس کی کردار سازی کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ آج والدین کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ وہ اپنی اولادوں کے ذہن اور فکر بناسکیں۔ خصوصاً ماؤں پر معاش کی ذمہ داری ڈال کر سارا سماج صرف مادّہ پیدا کرنے میں لگ جاتا ہے انسان کی فکر کسی کو نہیں ہوتی۔ صنفی یکسانیت، صنفی توازن اور صنفی انصاف Gender justiceکے نام پر عورت اور مرد دونوں کو گاڑی میں یکساں جوتنے کو ترقی کا نام دیدیا گیاہے۔ اب عورت کے پاس وقت نہیں ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اپنا دودھ ہی پلاسکے، بمشکل ۳ ماہ چھٹی لے کر گذار سکتی ہے اس کے بعد ڈبہ کا دودھ ہی ساتھی ہوتا ہے۔ دوسرے خواتین صنفی آزادی یا حقوق نسواں کے نعرہ پر فریفتہ ہوکر خود بھی احساس کمتری کا شکار ہورہی ہیں۔ وہ نہ چاہ کر بھی اپنی خانگی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے بازار اور فیکٹریوں و آفسوں میں بھی حیران و پریشان ہورہی ہے اور گھر میں بھی احساس جرم کا شکار رہتی ہے کہ گھر والوں کے حقوق ادا نہیں ہورہے ہیں۔ امریکہ میں لاس اینجلس کی خاتون ڈاکٹر اسٹیفن پولٹر نے اپنی کتاب "The mother Factor" میں مسئلہ کے اس پہلو پر بہت زور دیا ہے کہ آج کی نسل کی مائیں اپنی اولاد کی ماں بننے کے بجائے اُس کی دوست بننا چاہتی ہیں اسی کی طرح فیشن کرتی ہیں اسی کی طرح جوان دکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ دن بھر کام کرنے کے بعد والدین اولادوں سے الجھنا نہیں چاہتے اور دونوں اپنی اپنی مرضی کی زندگی گذارتے چلے جاتے ہیں۔ مگر اولادوں کو دوست ہی نہیں سرپرست بھی درکار ہوتے ہیں۔ اوراگر سرپرست (والد، والدہ) ہی دوست بن جائیں تو انہیں سمجھانے والا دنیا میں کون ہوگا؟ پولٹر کا کہنا ہے کہ آج اسی وجہ سے زیادہ تر نوجوان نشہ آور ادویّہ کے استعمال میں غرق ہیں۔ ڈاکٹر پولٹر نے ہالی وڈ کی متعدد مشہور ترین اداکاراؤں کے حوالہ سے بتایا کہ کس طرح وہ اور ان کی بیٹیاں نشہ کا شکار ہوئیں۔ ڈاکٹر پولٹر نے اپنی کتاب کے کامیاب اولادوں کے گھر کے لئے دس رہنما اصول میں بتایا :

(۱) کہ ماں کو ماں بننا چاہئے دوست نہیں۔

(۲) دوسرے گھر میں قوانین ہونے چاہئیں جن کی پابندی کی جائے۔ یہ کہنا کہ نئی نسل اپنے قوانین خود بنائے گی، بہت گمراہ کن ہے۔ ہندوستان میں حال ہی میں صنعتی تجارتی اداروں کی تنظیم اسوچھم (Assocham) نے ہندوستان کے۳۰۰۰ کام کا جی جوڑوں کے انٹرویو لے کر بتایا ”ایک کام کاجی خاتون اوسطاً دس(۱۰) گھنٹہ آفس میں گذارتی ہے ۔ڈھائی گھنٹہ آنے جانے میں، ۶-۷ گھنٹہ سونے میں اور ۳ گھنٹہ گھر کا کام کرنے میں۔ اور اسے صرف ۳۰ منٹ بچوں کے لئے ملتے ہیں۔ چھٹی کے دن بھی وہ خریدوفروخت اور بجلی ، پانی، فون،اسکول وغیرہ کے بلوں کی ادائیگی میں ہی لگے رہتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ ایک “خلاء“ کی صورت میں پیدا ہوتا ہے۔ جب آنے والی نسل پیدائش سے ہی اپنائیت، محبت ، خلوص اور چاہت و رہنمائی سے محروم رہے گی تواس کی نفسیات میں یقینا ٹیڑھ پیدا ہوگا۔ اور محرومی کی نفسیات میں گمراہی کے شیطانی ذرائع ٹی، وی، انٹرنیٹ، ریڈیو،موبائل، اخبارات میں سے ملنے والا فحش، بے حیاء اور عارضی مزہ والا مسالہ اسے بھکادیتا ہے۔ آج کل IPLکرکٹ میں نوٹنکی کی طرح فحش عریاں نیم عریاں جسموں کی نمائش اور انٹرنیٹ اور موبائل فونوں پر سہل الحصول فحش لٹریچر اور تصاویر کے کلچر نے اور سڑک، دوکان، مکان، اسکول، آفس، بس ٹرین ہر جگہ جس طرف فحاشی اور عریانی کو عام کیا ہے اس نے شرم، حیاء، قوانین،حرام حلال کے تمام شعور کو ہی ماؤف مسخ کردیاہے۔ ایسے میں شیطان کا کام ذرا سا ایک محرک یا پیش قدمی بہت آسان بنادیتا ہے کہ انسان بھٹک جائے اور شیطان کو بھی شرمندہ کردے۔ یہ دہلی پولس کی رپورٹ حقائق کی طرف صرف اشارہ کررہی ہے، حقیقت اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے۔ مشرقی ممالک کے معاشرے دوہری مار سے پریشان ہیں کیونکہ وہاں ۱۹ ویں اور ۲۱ویں صدی ساتھ ساتھ چل رہی ہے ایک طرف انکل، آنٹی اور کزن کی آڑ میں بے روک ٹوک خلط ملط کی آزادی ہوتی ہے اور جب آزادی شیطانی صنفی تعلقات کے طور پر سامنے آتی ہے تو نتیش کٹارا کی طرح کی عزت کے لئے قتل کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ ہولناک قتل اور رشتوں کی پامالی ہوتی ہے۔ ایسے تشویشناک حالات میں کیا صرف ”شریفانہ خاموشی“ یا اپنے ”کام سے کام“ رکھنے کی پالیسی سے سماج میں عزت، عصمت، حیاء باقی رہ پائے گی؟؟۔

٭٭٭
___________________________
دارالعلوم ، شماره : 7 ، جلد : 92 رجب 1429 ھ مطابق جولائی 2008ء

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔