Sunday, June 28, 2015

اعتراضات: اگر تمام اہل کتاب حضرت عیسیؑ پر ایمان لے آئیں گے تو یہود و نصاری کی قیامت تک دشمنی کیسے رہے گی؟

0 comments
قادیانی اعتراض 4 : اگر تمام اہل کتاب حضرت عیسیؑ پر ایمان لے آئیں گے تو یہود و نصاری کی قیامت تک دشمنی کیسے رہے گی؟
قادیانی اعتراض نمبر:۴… ’’مگر افسوس کہ وہ (اہل اسلام) اپنے خود تراشیدہ معنوں سے قرآن میں اختلاف ڈالنا چاہتے ہیں۔ جس حالت میں اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’والقینا بینہم العداوۃ والبغضاء الیٰ یوم القیامۃ‘‘ جس کے یہ معنی ہیں کہ یہود اور نصاریٰ میں قیامت تک بغض اور دشمنی رہے گی تو اب بتلاؤ کہ جب تمام یہودی قیامت سے پہلے ہی حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے تو پھر بغض اور دشمنی قیامت تک کون لوگ کریں گے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۲۶، خزائن ج۱۷ ص۳۰۹)
نوٹ: ایسا ہی مرزاقادیانی نے دو تین اور آیات سے استدلال کیا ہے۔ جس کا مطلب وہی ہے جو نمبر:۴ میں ہے۔

جواب نمبر:۴… مرزاقادیانی کونہ علم ظاہری نصیب ہوا اور نہ باطنی آنکھیں ہی نصیب ہوئیں۔ موافقت کا نام وہ اختلاف رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں اہل اسلام کی تفسیر ماننے سے قرآن میں اختلاف ہوجاتا ہے۔ سبحان اﷲ! مرزاقادیانی جیسے بے استاد اور بے پیر سمجھنے والے ہوں تو اختلاف اور تضاد ہی نظر آنا چاہئے۔ باقی رہا ان کا یہ اعتراض کہ یہود اور نصاریٰ کے درمیان بغض اور عناد کا قیامت تک رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہود اور نصاریٰ دونوں مذاہب قیامت تک زندہ رہیں گے تو اس کا جواب بھی آنکھیں کھول کر پڑھئے۔
اوّل تو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہود ونصاریٰ سے مراد دو قومیں ہیں۔ اگر وہ مسلمان بھی ہو جائیں تو بھی ان کے درمیان بغض وعناد کا رہنا کون سا محال ہے؟ کیا اس وقت روئے زمین کے مسلمانوں میں بغض وعناد معدوم ہے؟ کیا تمام مرزائی بالخصوص لاہوری وقادیانی جماعتوں میں بغض وعناد نہیں ہے؟ ہے اور ضرور ہے۔ کیا اس صورت میں وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ دوسرے ’’الیٰ یوم القیامۃ‘‘ سے مراد یقینا طوالت زمانہ ہے اور یہ محاورہ تمام اہل زبان استعمال کرتے ہیں۔ دیکھئے! جب ہم یوں کہیں کہ قادیانی میرے دلائل کا جواب قیامت تک نہیں دے سکیں گے تو مراد اس سے ہمیشہ ہمیشہ ہے۔ یعنی جب تک مرزائی دنیا میں رہیں گے۔ اگرچہ وہ قیامت تک ہی کیوں نہ رہیں۔ میرے دلائل کا جواب نہیں دے سکیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرزائی لوگوں کے قیامت تک رہنے کی میں پیش گوئی کر رہا ہوں۔ یاجب یوں کہا جاتا ہے کہ زید تو قیامت تک اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ کون بیوقوف ہے جو اس کا مطلب یہ سمجھے گا کہ کہنے والے کا مطلب یہ ہے کہ زید قیامت تک زندہ رہے گا؟ مطلب صاف ہے کہ جب تک زید زندہ رہے گا وہ اس کا جواب نہیں دے سکتا۔ اسی طرح آیات پیش کردہ کا مطلب ہے۔
آیت اوّل ہے: ’’
واغوینا بینہم العداوۃ والبغضاء الیٰ یوم القیامۃ‘‘ اور مطلب اس کا بمطابق محاورہ یہی ہے کہ جب تک بھی یہود ونصاریٰ رہیں گے ان کے درمیان باہمی عداوت اور دشمنی رہے گی۔
آیت ثانی یہ ہے۔
’’وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ‘‘ کا مطلب بھی یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تابعدار قیامت تک ہمیشہ یہود پر غالب رہیں گے۔

اب غلبہ کئی قسم کا ہے۔ اس کی دو صورتیں بہت ہی اہم ہیں۔
اوّل… یہود کا نصاریٰ ومسلمانوں کا غلام ہوکر رہنا۔ مگر اپنے مذہب پر برابر قائم رہنا۔ یہ صورت اب موجود ہے۔
دوم… یہود کا نہ صرف مسلمانوں اور نصاریٰ کے ماتحت ہی رہنا بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مخالفت چھوڑ کر ان کا روحانی غلام بھی ہو جانا اور یہی حقیقی ماتحتی اور غلامی ہے۔ اس کا ظہور نزول المسیح کے وقت ہوگا۔ یہی مطلب ہے۔ تمام آیات کلام اﷲ کا جس کو مرزاقادیانی اور ان کی قلیل الانفاس جماعت بڑے طمطراق سے سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے پیش کیا کرتے ہیں۔ ہم اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں احادیث نبوی اور خود اقوال مرزا قادیانی سے شہادت پیش کرتے ہیں۔
حدیث نبوی
’’یہلک اﷲ فی زمانہ (اے عیسیٰ) الملل کلہا الا الاسلام‘‘
{ہلاک کر دے گا اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تمام مذاہب کو سوائے اسلام کے۔}
(رواہ ابوداؤد ج۲ ص۱۳۵، باب خروج الدجال، مسند احمد ج۲ ص۴۰۶، درمنثور ج۲ ص۲۴۲)
روایت کیا اس حدیث کو ابوداؤد، احمد ابن جریر اور صاحب درمنثور نے۔ جن کا منکر مرزاقادیانی کے نزدیک کافر وفاسق ہوجاتا ہے۔

(دیکھو اصول مرزا نمبر:۴)
اقوال مرزا
۱… ’’اس پر اتفاق ہوگیا ہے کہ مسیح کے نزول کے وقت اسلام دنیا پر کثرت سے پھیل جائے گا اور ملل باطلہ ہلاک ہو جائیں گے اور راست بازی ترقی کرے گی۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۳۶، خزائن ج۱۴ ص۳۸۱)
۲… ’’میرے آنے کے دو مقصد ہیں۔ مسلمانوں کے لئے یہ کہ اصل تقویٰ اور طہارت پر قائم ہو جائیں… جیسا کہ آج کل قادیان میں اس کا ظہور ہورہا ہے۔‘‘
(فیصلہ سیشن جج گورداسپور دربارہ امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ صاحب ابوعبیدہ)
اور عیسائیوں کے لئے کسر صلیب ہو اور ان کا مصنوعی خدا نظر نہ آئے دنیا اس کو بالکل بھول جائے خدائے واحد کی عبادت ہو۔
(ملفوظات ج۸ ص۱۴۸)
۳… ’’اور پھر اسی ضمن میں (رسول اﷲﷺ نے) مسیح موعود کے آنے کی خبر دی اور فرمایا کہ اس کے ہاتھ سے عیسائی دین کا خاتمہ ہوگا۔‘‘
(شہادت القرآن ص۱۱، خزائن ج۶ ص۳۰۷)
۴… ’’ونفخ فی الصور فجمعناہم جمعاً‘‘ خداتعالیٰ کی طرف سے صور پھونکا جائے گا۔ تب ہم تمام فرقوں کو ایک ہی مذہب پر جمع کر دیں گے۔
(شہادۃ القرآن ص۱۵، خزائن ج ص۳۱۱)
۵… ’’ونفخ فی الصور فجمعنا ہم جمعاً‘‘ یعنی یاجوج ماجوج کے زمانہ میں بڑا تفرقہ اور پھوٹ لوگوں میں پڑ جائے گی اور ایک مذہب دوسرے مذہب پر اور ایک قوم دوسری قوم پر حملہ کرے گی۔ تب ان دنوں خداتعالیٰ اس پھوٹ کو دور کرنے کے لئے آسمان سے بغیر انسانی ہاتھوں کے اور محض آسمانی نشانوں سے اپنے کسی مرسل کے ذریعہ جو صور یعنی قرنا کا حکم رکھتا ہوگا۔ اپنی پرہیبت آواز لوگوں تک پہنچائے گا۔ جس میں ایک بڑی کشش ہوگی اور اس طرح پر خداتعالیٰ تمام متفرق لوگوں کو ایک مذہب پر جمع کر دے گا۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۸۰، خزائن ج۲۳ ص۸۸)
۶… ’’خدا نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قومیں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہو جائیں۔ زمانہ محمدی کے آخری حصہ میں ڈال دی جو قرب قیامت کا زمانہ ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۸۲،۸۳، خزائن ج۲۳ ص۹۰،۹۱)
۷… ’’خداتعالیٰ نے ہمارے نبی سیدنا حضرت محمد مصطفیﷺ کو دنیا میں بھیجا۔ تابذریعہ اس تعلیم قرآنی کے جو تمام عالم کی طبائع کے لئے مشترک ہے۔ دنیا کی تمام متفرق قوموں کو ایک قوم کی طرح بنا دے اور جیسا کہ وہ وحدہ لا شریک ہے۔ ان میں بھی ایک وحدت پیدا کرے اور تا وہ سب مل کر ایک وجود کی طرح اپنے خدا کو یاد کریں اور اس کی وحدانیت کی گواہی دیں اور تاپہلی وحدت قومی جو ابتدائے آفرینش میں ہوئی اور آخری وحدت اقوامی… یہ دونوں قسم کی وحدتیں خدائے وحدہ لا شریک کے وجود اور اس کی حدانیت پر دوہری شہادت ہو کیونکہ وہ واحد ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۸۲، خزائن ج۲۳ ص۹۰)
۸… ’’وحدت اقوامی کی خدمت اسی نائب النبوۃ (مسیح موعود) کے عہد سے وابستہ کی گئی ہے اور اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے۔ ھو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علیٰ الدین کلہ‘‘
(چشمہ معرفت ص۸۳، خزائن ج ص۹۱)
ناظرین! ہم نے احادیث نبوی ’’علی صاحبہا الصلوات والسلام‘‘ اور اقوال مرزا سے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح علیہ السلام کے وقت میں تمام مذاہب سوائے اسلام کے مٹ جائیں گے۔ اب اگر مرزائی وہی مرغی کی ایک ٹانگ کی رٹ ہی لگائے جائیں تو پھر مذکورہ بالا اقوال مرزاکو تو کم ازکم فضول اور لایعنی کہنا پڑے گا۔ ایسا وہ کہہ نہیں سکتا۔ کیونکہ مرزاقادیانی ان کے نزدیک حکم ہے اور جری اﷲ فی حلل الانبیاء ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ان کا یہ اعتراض بالکل جہالت پر مبنی ہے۔

قادیانی اعتراض 5 : 
(۱)’’دوسری قرأت اس آیت میں بجائے ’’قبل موتہ قبل موتہم‘‘ موجود ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۴، خزائن ج۲۲ ص۳۶)
۲… ’’ابی بن کعب کی قرأت سے ثابت ہوا کہ ’’موتہ‘‘ کی ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف نہیں پھرتی۔ بلکہ اہل الکتاب کی طرف راجع ہے۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۴۷، خزائن ج۷ ص۲۴۱)

قادیانی اعتراض 6 :
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ ’’موتہ‘‘ کی ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہے اور یہ قول بالکل ضعیف ہے۔ محققین میں سے ایک نے بھی اس کو تسلیم نہیں کیا۔
(حمامتہ البشریٰ ص۴۸، خزائن ج۷ ص۲۴۱)

قادیانی اعتراض 7:
’’چونکہ علماء اسلام اس آیت کی تفسیر میں ایک دوسرے کے ساتھ بہت اختلاف کرتے ہیں۔ اس واسطے ثابت ہوا کہ سب اصل حقیقت سے بے خبر ہیں۔‘‘ 
(ملخص از عسل مصفیٰ ج۱ ص۴۱۹، ۴۲۰)
ناظرین! اسی قدر اعتراضات قادیانی میری نظر سے گزرے ہیں۔ ذیل میں بالترتیب جوابات عرض کرتا ہوں۔

جوابات:
اعتراض نمبر 5 کا جواب:
مرزاقادیانی کا پانچواں اعتراض یہ ہے کہ قرأۃ ابی بن کعب میں ’’قبل موتہ‘‘ کی بجائے ’’قبل موتہم‘‘ آیا ہے۔ جس سے مراد ’’اہل کتاب کی موت سے پہلے‘‘ ہے نہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے۔ مرزاقادیانی کے دجل وفریب کی قلعی ذیل میں یوں کھولی جاتی ہے۔
۱… یہ روایت ضعیف ہے اور اس کے ضعیف ٹھہرانے والا وہ بزرگ ہے۔ جو مرزاقادیانی کے نزدیک نہایت معتبر اور آئمہ حدیث میں سے ہے۔ (یعنی مفسر ومحدث ابن جریر) 

(چشمہ معرفت ص۲۵۰ حاشیہ، خزائن ج۲۳ ص۲۶۱)
نیز اسی مفسر ابن جریر کے متعلق مرزاقادیانی کے مسلمہ مجدد صدی نہم امام جلال الدین سیوطیؒ کا فتویٰ ہے۔
’’اجمع العلماء المعتبرون علیٰ انہ لم یؤلف فی التفسیر مثلہ‘‘ 

(اتقان ج۲ ص۳۲۵)
’’معتبر علماء امت کا اجماع ہے۔ اس بات پر کہ امام ابن جریر کی تفسیر کی مثل کوئی تفسیر نہیں لکھی گئی۔‘‘
اس روایت کو ضعیف ٹھہرا کر مفسر ابن جریر نے صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ ابن عباسؓ کا مذہب بھی یہی ہے کہ ’’قبل موتہ‘‘ سے مراد ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے‘‘ہے۔ نہ کہ کتابی کی موت۔

(تفسیر ابن جریر)

اعتراض نمبر 6 کا جواب:
۲… خود مرزاقادیانی نے ’’موتہ‘‘ کی ضمیر کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہونا تسلیم کیا ہے۔
(ازالہ اوہام ص۳۷۲،۳۸۶، خزائن ج۳ ص۲۹۱،۲۹۹)
ہاں کلام اﷲ کے الفاظ کو نعوذ باﷲ ناکافی بتلا کر ایسے ایسے مخدوفات نکالے ہیں کہ تحریف میں یہودیوں سے بھی گوئے سبقت لے گیا ہے۔ بہرحال ہمارا دعویٰ سچا رہا کہ ’’ہ‘‘ کی ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہے۔
۳… نورالدین خلیفۂ اوّل مرزاقادیانی اپنی کتاب فصل الخطاب حصہ دوم ص۷۲ میں اسی آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں۔
’’اور نہیں کوئی اہل کتاب سے مگر البتہ ایمان لائے گا۔ ساتھ اس کے (حضرت مسیح علیہ السلام کے) پہلے موت اس کی (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کے اور دن قیامت کے ہوگا اوپر ان کے گواہ۔‘‘ اس سے بھی ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی کا دعویٰ بے ثبوت ہے۔ کیونکہ ہم نے اس کے خلاف اس کے اپنے مسلمات اور معتبر آئمہ تفسیر کے اقوال پیش کئے ہیں۔

اعتراض نمبر 7 کا جواب:
۴… جمہور علماء اسلام ہمیشہ ’’قبل موتہ‘‘ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات پر استدلال کرتے رہے ہیں۔ جیسا کہ سابق میں ہم بیان کر آئے ہیں۔
۵… بخاری شریف کی صحیح حدیث اس روایت کی تردید کر رہی ہے۔ جیسا کہ پہلے ہم بیان کر آئے ہیں۔
۶… اگر ’’قبل موتہ‘‘ کی ضمیر کتابی کی طرف پھیری جائے تو پھر معنی آیت کے یہ ہوں گے۔ ’’تمام اہل کتاب اپنی موت سے پہلے ایمان لے آئیں گے۔‘‘ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کروڑہا اہل کتاب کفر پر مر رہے ہیں۔
چنانچہ خود مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
’’ہر ایک شخص خوب جانتا ہے کہ بے شمار اہل کتاب مسیح کی نبوت سے کافر رہ کر واصل جہنم ہو چکے ہیں۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۳۶۷، خزائن ج۳ ص۲۸۸)
پس مجبوراً ماننا پڑتا ہے کہ قبل موتہ سے مراد ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے‘‘ ہے۔
۷… ’’لیؤمنن‘‘ میں لام قسم اور نون ثقلیہ موجود ہے۔ جو ہمیشہ فعل کو آئندہ زمانہ سے خاص کر دیتے ہیں۔ پس معنی اس کے یہ ہوں گے۔ ’’البتہ ضرور ایمان لے آئے گا۔‘‘ اگر ہر کتابی کا اپنی موت سے پہلے ایمان مقصود ہوتا تو پھر عبارت یوں چاہئے تھی۔
’’من یؤمن بہ قبل موتہ‘‘ جس کے معنی قادیانیوں کے حسب منشاء ٹھیک بیٹھتے ہیں۔ یعنی ہر ایک اہل کتاب ایمان لے آتا ہے۔ اپنی موت سے پہلے۔ اگر قادیانی ہمیں اس قانون کا غلط ہونا ثابت کردیں تو ہم علاوہ مقررہ انعام کے مبلغ دس روپے اور انعام دیں گے۔ انشاء اﷲ قیامت تک کسی معتبر کتاب سے اس کے خلاف نہ دکھا سکیں گے۔
۸… آیت کا آخری حصہ ’’ویوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا‘‘
{اور قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان پر شہادت دیں گے۔} قادیانی بھی اس حصہ آیت کے معنی کرنے میں ہم سے متفق ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہود ونصاریٰ کے کس حال کی گواہی دیں گے۔ اگر آیت کے معنی قادیانی تفسیر کے مطابق کریں۔ یعنی یہ کہ ’’تمام اہل کتاب اپنی موت سے پہلے ایمان لے آتے ہیں۔‘‘ تو وہ ہمیں بتلائیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیسے شہادت دیں گے اور کیا دیں گے؟
ہاں اگر اسلامی تفسیر کے مطابق مطلب بیان کیا جائے یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے زمانہ میں تمام یہود ایمان لے آئیں گے اور کوئی منکر ان کی موت کے بعد باقی نہ رہے گا تو پھر واقعی قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے ایمان لانے کی شہادت دے سکیں گے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن عرض کریں گے۔ ’’کنت علیہم شہیداً مادمت فیہم‘‘ جب تک میں ان میں موجود رہا میں ان پر نگہبان تھا۔
۹… ’’قبل موتہ‘‘ میں ’’قبل‘‘ کا لفظ بڑا ہی قابل غور ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اہل کتاب اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہیں لاتے۔ بعض علماء کا خیال ہے اور انہیں میں مرزاغلام احمد قادیانی بھی ہے کہ اس ایمان سے مراد ایمان اضطراری ہے جو غرغرہ (نزع) کے وقت ہر ایک کتابی کو حاصل ہوتا ہے۔ یہ دو وجہوں سے باطل ہے۔ اگر ایمان اضطراری مراد ہوتا تو اﷲتعالیٰ اپنی فصیح وبلیغ کلام میں ’’قبل‘‘ کی بجائے ’’عند موتہ‘‘ فرماتے۔ یعنی موت کے وقت ایمان لاتے ہیں اور وہ ایمان واقعی قابل قبول نہیں ہوتا۔ لیکن جس ایمان کا اﷲتعالیٰ بیان فرمارہے ہیں۔ وہ ایمان اہل کتاب کو اپنی موت سے پہلے حاصل ہونا ضروری ہے۔ مگر وہ واقعات کے خلاف ہے۔ لہٰذا یہی معنی صحیح ہوں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے۔
۱۰… مرزاغلام احمد قادیانی کی مضحکہ خیز تفسیر سے بھی ہم اپنے ناظرین کو محظوظ کرنا چاہتے ہیں۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ:
’’کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو ہمارے اس بیان مذکورہ بالا پر جو ہم نے (خدا نے) اہل کتاب کے خیالات کی نسبت ظاہر کئے ہیں۔ ایمان نہ رکھتا ہو۔ قبل اس کے جو وہ اس حقیقت پر ایمان لائے جو مسیح اپنی طبعی موت سے مر گیا۔‘‘ یعنی تمام یہودی اور عیسائی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ فی الحقیقت انہوں نے مسیح کو صلیب نہیں دیا یہ ہمارا ایک اعجازی بیان ہے۔

(ازالہ اوہام طبع اوّل ص۳۷۲،۳۷۶، خزائن ج۳ ص۲۹۱،۲۹۳)
مجھے یقین ہے کہ ناظرین اوّل تو مرزاقادیانی کی پیچیدہ عبارت کا مطلب ہی نا سمجھ سکیں اور اگر سمجھ جائیں تو سوچیں کہ یہ عبارت کلام اﷲ کے کون سے الفاظ کا ترجمہ ہے۔

چیلنج 
مرزاقادیانی اپنی کتاب (شہادۃ القرآن ص۵۴،۵۵،خزائن ج۶ ص۳۵۰،۳۵۱) پر صاف اقرار کرتے ہیں کہ ’’کلام اﷲ کا صحیح مفہوم ہمیشہ دنیا میں موجود رہا اور رہے گا۔‘‘
نیز مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون‘‘ خداتعالیٰ نے اپنے کلام کی حفاظت ایسے آئمہ واکابر کے ذریعہ سے کی ہے جن کو ہر ایک صدی میں فہم القرآن عطاء ہوتا ہے۔

(ایام الصلح ص۵۵، خزائن ج۱۴ ص۲۸۸)
ہمارا چیلنج یہ ہے کہ اگر مرزاقادیانی میں کچھ بھی صداقت کا شائبہ ہے تو وہ یا ان کی جماعت اس آیت کی یہ تفسیر حدیث سے یا ۱۳۵۳ھ سال کے مجددین امت وعلماء مفسرین کے اقوال سے پیش کریں۔ ورنہ بمطابق ’’من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبؤا مقعدہ من النار‘‘
(ترمذی ج۲ ص۱۲۳، باب ماجاء فی الذی یفسر القرآن)
یعنی فرمایا رسول کریمﷺ نے کہ جس کسی نے اپنی رائے سے تفسیر کی۔ اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالیا۔
خود مرزاقادیانی تفسیر بالرائے کے متعلق لکھتے ہیں:
’’مؤمن کا یہ کام نہیں کہ تفسیر بالرائے کرے۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۳۲۸، خزائن ج۳ ص۲۶۷)
پھر فرماتے ہیں:
’’ایک نئے معنی اپنی طرف سے گھڑنا یہی تو الحاد اور تحریف ہے۔ خدا مسلمانوں کو اس سے بچائے۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۷۴۵، خزائن ج۳ ص۵۰۱)
پس یا تو مرزائی جماعت مرزاقادیانی کے بیان کردہ معنی کسی سابق مجدد یا مفسر امت کی کتاب سے ثابت کرے یا مرزاقادیانی کا اور اپنا ملحد اور محرف ہونا تسلیم کرے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔