Sunday, June 28, 2015

توفی عیسیٰ کے معنی ’’مارنا‘‘ کرنے کے خلاف جسم وروح پر قبضہ کرنے کی تائید میں دلائل اسلامی

0 comments
توفی عیسیٰ کے معنی ’’مارنا‘‘ کرنے کے خلاف جسم وروح پر قبضہ کرنے کی تائید میں دلائل اسلامی
ناظرین! انجیل کے بیان اور ومکروا ومکراﷲ کی بحث سے میں قادیانی مسلمات کی رو سے ثابت کر آیا ہوں کہ یہود نے مکروفریب کے ذریعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر قبضہ کر کے انہیں قتل کرنے کا اہتمام کر لیا تھا اور مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ سے ثابت کر آیا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو موت سامنے نظر آنے لگ گئی اور یہ بھی ثابت کر آیا ہوں اور وہ بھی مرزاقادیانی کی زبانی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس مصیبت سے بچنے کی دعا تمام رات کی۔ وہ قبول بھی ہوگئی۔ قبولیت کی آواز بذریعہ وحی ان الفاظ قرآنی میں آئی۔ ’’یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطہرک من الذین کفروا وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ (آل عمران:۵۵)‘‘

حسب اصول مرزاقادیانی ’’انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘ میں توفی بمعنی مجازی لینے کے لئے کوئی قرینہ یا علامت ضروری چاہئے تھی۔ مگر کوئی قرینہ موت کا اس کے ساتھ موجود نہیں۔ بلکہ باوجود توفی اپنے حقیقی معنوں میں یعنی روح بمعہ جسم کو قبضہ میں لے لینا یہاں مستعمل ہے۔ پھر یہی مرزاقادیانی جیسے محرفین کلام اﷲ اور مدعیان مجددیت ومسیحیت کا ناطقہ بند کرنے کے اﷲتعالیٰ نے یہاں بہت سے ایسے قرائن بیان فرمادئیے ہیں جو قبض روح معہ الجسم پر ڈنکے کی چوٹ اعلان کر رہے ہیں اور وہ قرائن یہ ہیں۔
قرینہ نمبر:۱… توفی کے بعد جب رفع کا لفظ استعمال ہوگا اور رفع کا صدور بھی توفی کے بعد ہوتو اس وقت توفی کے معنی یقینا غیرموت ہوں گے۔ اگر کوئی قادیانی لغت عرب سے اس کے خلاف کوئی مثال دکھا سکے تو ہم یک صدروپیہ خاص انعام دینے کا اعلان کرتے ہیں۔
قرینہ نمبر:۲… آیت ’’ومکروا ومکراﷲ واﷲ خیر الماکرین‘‘ کے بعد ’’انی متوفیک‘‘ وارد ہوئی ہے اور یہ اﷲ کے مکر کی گویا تفسیر ہے۔ یہود کے مکر اور اﷲتعالیٰ کے مکر میں تضاد اور مخالفت ضروری ہے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔ یہودیوں نے مکر کیا اور اﷲ نے بھی مکر کیا اور اﷲ سب مکر کرنے والوں سے اچھے ہیں۔ اﷲ کا مکر (تدبیر لطیف) سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم یہودیوں کی تدبیر معلوم کریں۔ سنئے! اور بالفاظ مرزا سنئے!
’’چنانچہ یہ بات قرار پائی کہ کسی طرح اس کو صلیب دی جائے پھر کام بن جائے گا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۲، خزائن ج۱۷ ص۱۰۶)
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ حالت دیکھی تو ان کے ظلم وجور سے بچنے کے لئے دعا مانگی۔ چنانچہ مرزاقادیانی اس کے متعلق لکھتا ہے:
’’حضرت مسیح نے خود اپنے بچنے کے لئے تمام رات دعا مانگی تھی اور یہ بالکل بعید ازقیاس ہے کہ ایسا مقبول درگاہ الٰہی تمام رات رو رو کر دعا مانگے اور وہ دعا قبول نہ ہو۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۱)
اس دعا عیسوی کے جواب میں اﷲتعالیٰ نے بذریعہ وحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فرمایا: ’’انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطہرک من الذین کفروا‘‘ اگر توفی کے معنی موت دینا یہاں تسلیم کئے جائیں تو مطلب یوں ہوگا۔ اے عیسیٰ علیہ السلام یہودیوں نے جو تمہارے قتل اور صلیب کی سازش کی ہے۔ ان کے مقابلہ پر میں نے یہ تدبیر لطیف کی ہے کہ میں ضرور تمہیں موت دوں گا۔ یہودی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مارنا چاہتے تھے اور خداتعالیٰ ان کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ہاں تم مرو گے اور ضرور مرو گے۔
سبحان اﷲ! یہ یہودیوں کی تجویز اور تدبیر کی تائید ہے یا اس کا رد ہے۔ اگر کہو کہ اس سے مراد طبعی موت دینا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ طبعی موت کی پچر کس طرح قبول کی جاسکتی ہے۔ اگر یہودی قتل کرنے اور صلیب دینے میں کامیاب ہو جاتے تو اس صورت میں موت دینے والے کیا یہودی ہوتے۔ کیا اس حالت کی توفی خدا کی طرف منسوب نہ ہوتی؟ پس اگر ’’انی متوفیک‘‘ کے معنی یہ کئے جائیں کہ میں تمہیں موت دینے والا ہوں۔ تو یہ یہودیوں کی تائید اور ان کے مکر کو کامیاب کرنے کا اعلان تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے اس میں کون سی تسلی تھی۔ اس واسطے تو فی عیسیٰ کے معنی روح وجسم پر قبضہ کرنا ہی صحیح ہے۔
قرینہ نمبر:۳… مرزاقادیانی کو بھی خدائے مرزا نے الہام کیا تھا۔ ’’انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘
(براہین احمدیہ ص۵۵۶،۵۱۹، خزائن ج۱ ص۶۲۰،۶۶۴)
وہاں مرزاقادیانی اپنے لئے توفی بمعنی موت سے گھبراتے ہیں۔ وہاں یہ معنی کرتے ہیں۔ ’’انی متوفیک‘‘ یعنی میں تجھے پوری نعمت دوں گا یا پورا اجر دوں گا۔ پھر یہی مرزاقادیانی کس قدر دیدہ دلیری سے لکھتا ہے۔
’’وثبت ان التوفی ھو الاماتۃ والافناء لا الرفع والاستیفائ‘‘ یعنی ثابت ہویا کہ توفی کے معنی موت دینا اور فنا کرنا ہے نہ کہ رفع اور پورا پورا لینا یادینا۔
(انجام آتھم ص۱۳۱، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
پس جیسا اپنے لئے موت کا وعدہ مرزاقادیانی کو مرغوب نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے موت دینے کا وعدہ خداوندی کیونکر قبول کر سکتا ہے۔ بالخصوص جبکہ موت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حسب قول مرزا نظر آہی رہی تھی۔ جیسا کہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔
’’مسیح ایک انسان تھا اور اس نے دیکھا کہ تمام سامان میرے مرنے کے موجود ہوگئے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹۴، خزائن ج۳ ص۳۰۳)
معزز ناظرین! اس حالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو دعا کی تھی اس کا ذکر بھی مرزاقادیانی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے۔
’’حضرت مسیح علیہ السلام نے تمام رات اپنے بچنے کے لئے دعا مانگی تھی۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۱)
’’یہ بالکل بعید ازقیاس ہے کہ ایسا مقبول درگاہ الٰہی تمام رات رورو کر دعا مانگے اور وہ دعا قبول نہ ہو۔‘‘
(حوالہ بالا)
’’یہ قاعدہ مسلم الثبوت ہے کہ سچے نبیوں کی سخت اضطرار کی ضرور دعا قبول ہو جاتی ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۳ ص۸۳، مجموعہ اشتاہرات ج۲ ص۱۰)
ان حالات میں بقول مرزاقادیانی، اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بشارت دیتے ہیں کہ اے عیسیٰ میں واقعی تجھے موت دینے والا ہوں۔ خوب مرزاقادیانی کو تو اﷲ تعالیٰ بغیر کسی خطرہ کی حالت کے وعدہ ’’انی متوفیک‘‘ کا دیں اور مرزاقادیانی بقول خود بمطابق لغت عرب اس کے معنی اپنے لئے موت تجویز نہیں کرتے۔ بلکہ لغت کے خلاف اس کے معنی کرتے ہیں۔ ’’میں تمہیں پورا پورا اجر دوں گا۔‘‘ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان ناگفتہ بہ حالات کے درمیان اﷲتعالیٰ بشارت دیتے ہیں۔ ’’انی متوفیک‘‘ اور مرزاقادیانی اس کے معنی کرتے ہیں۔ ’’میں تمہیں موت دینے والا ہوں۔‘‘
’’تلک اذا قسمۃ ضیزی (النجم)‘‘
{یہ تو بہت ہی بے ڈھنگی تقسیم ہے۔}
قرینہ نمبر:۴… ’’انی متوفیک‘‘ کے معنی رسول پاکﷺ سے لے کر آج تک جس قدر علماء مفسرین ومجددین مسلمہ قادیانی گزرے ہیں۔ انہوں نے تو یہ کئے ہیں۔ ’’اے عیسیٰ علیہ السلام میں تجھ کو بمعہ جسم آسمان کی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘ قادیانی اس کے معنی یوں کرتے ہیں۔ ’’اے عیسیٰ علیہ السلام میں تمہارا رفع روحانی کروں گا۔‘‘ تجھے صلیب پر مرنے نہیں دوں گا۔ بیشک یہودی تمہیں ذلیل کریں گے۔ تمہارے منہ پر تھوکیں گے۔ تمہارے جسم میں کیل ٹھوکیں گے۔ تمہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ جائیں گے۔ مگر تمہاری میں روح نہیں نکلنے دوں گا۔ روح تمہاری کسی اور موقع پر طبعی موت سے نکالوں گا۔ کیونکہ اگر اس وقت نکال لوں تو تم لعنتی موت مرو گے۔ (مفصل دیکھیں بحث ’’ومکروا ومکر اﷲ‘‘) سبحان اﷲ! یہ ہیں قادیانی کے نکات قرآنی۔ بھلے مانس کو یہ سمجھ نہیں کہ رفع روحانی کا تو ہر ایک مؤمن کو خدا وعدہ دے چکا ہے۔ بالخصوص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو پہلے سے پتہ تھا۔
اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
۱… ’’یرفع اﷲ الذین اٰمنوا منکم والذین اوتوا العلم درجات (مجادلہ:۱۱) ‘‘
{اﷲتعالیٰ مؤمنوں اور علم والوں کے درجات کو بلند کرتا ہے۔} یعنی رفع روحانی ہے۔
(دیکھئے رفع کے ساتھ درجات کا لفظ مذکور ہے۔ اس واسطے یہاں اس کے معنی درجات کا بلند کرنا ہے)
۲… حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود بچپن میں کہہ دیا تھا۔
(الف)’’والسلام علیّٰ یوم ولدت ویوم اموت ویوم ابعث حیاً (مریم:۳۳)‘‘
{اور سلام ہے اﷲ کا مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا۔}
(ب)’’وجعلنی مبارکاً اینما کنت (مریم:۳۱)‘‘
{اور اﷲ نے بنایا مجھ کو برکت والا جہاں کہیں رہوں۔}
(ج)اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں فرمایا تھا۔ ’’وجیہا فی الدنیا والآخرۃ ومن المقربین (آل عمران:۴۵)‘‘
{حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا اور آخرت دونوں میں صاحب عزت وجاہت ہیں اور خدا کے مقرب بندوں میں سے ہیں۔}
(د)’’کلمۃ اﷲ القاہا الیٰ مریم (نسائ:۱۷۱)‘‘
{وہ اﷲ کے کلمہ تھے جو القاء کیاگیا تھا۔ طرف مریم کے۔}
(ہ)خود مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ ’’ہر مؤمن کا رفع روحانی خود بخود ہوتا ہے۔ تمام انبیاء کا رفع روحانی ہوا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۲۶۵، خزائن ج۳ ص۲۳۳ ملخصاً)
پس ہمارا سوال یہاں یہ ہے کہ
یہ آیت چونکہ بطور بشارت ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ رفع روحانی کا وعدہ آپ کے لئے کیا بشارت ہوسکتی تھی؟
کیا اس وعدہ سے پہلے ان کو علم نہ تھا۔ کیا انہیں وجیہہ، کلمتہ اﷲ، روح اﷲ، نبی اولوالعزم ہونے کا یقین نہ تھا۔ کیا انہیں اپنی نجات کے متعلق کوئی شک پیدا ہوگیا تھا؟
جس کا دفعیہ یہاں کیاگیا تھا۔ ہرگز نہیں۔ انہیں اپنی نجات، معصومیت، روح اﷲ، کلمتہ اﷲ اور نبی ہونے کا یقین تھا۔ ہاں سارے سامان قتل اور صلیب اور ذلت کے دیکھ کر بتقاضائے بشریت فکر پیدا ہوا تھا۔ جس پر اﷲتعالیٰ نے بطور بشارت ارشاد فرمایا: ’’انی متوفیک‘‘ اے عیسیٰ علیہ السلام میں خود تم پر قبضہ کرنے والا ہوں۔ (پس گھبراؤ نہیں یہودی تم پر قبضہ نہیں کر سکتے) پھر بتقاضائے بشریت خیال آیا کہ خداوند کریم کس طرح قبضہ کریں گے۔ اس کی صورت کیا ہوگی۔ پھر اﷲتعالیٰ نے فرمایا: ’’ورافعک الیّٰ‘‘ اور قبضہ کر کے (تم کو اپنی طرف یعنی آسمان کی طرف) اٹھانے والا ہوں۔ پس ثابت ہوا۔ یہاں توفی اور رفع دونوں کے معنی موت دینا اور رفع روحانی نہیں ہوسکتے۔ بلکہ قبض جسمانی اور رفع جسمانی کے بغیر اور معنی سیاق وسباق اور قوانین لغت عرب کے مخالف ہیں۔
قرینہ نمبر:۵… اگر توفی بمعنی طبعی موت اور رفع الیٰ اﷲ سے مراد رفع روحانی ہوتا تو اﷲ ان افعال کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے مخصوص نہ کرتے اور نہ ہی یہود کے مکروفریب کے مقابلہ پر اس فعل کو تدبیر لطیف بیان کر کے سب مکر کرنے والوں پر اپنا غلبہ ظاہر کرتے۔ کیونکہ یہ سلوک تو اﷲتعالیٰ ہر مؤمن مسلمان سے کرتے ہیں۔
قرینہ نمبر:۶… اگر توفی بمعنی موت طبعی دینا ہوتا اور رفع الیٰ اﷲ سے مراد رفع روحانی ہوتا تو دونوں کے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ حسب قول مرزا، طبعی موت دینے کا وعدہ صلیبی موت سے بچانا تھا۔ یعنی لعنتی موت سے بچا کر رفع روحانی کی غرض سے انی متوفیک کہاگیا۔ پھر رفع الیٰ اﷲ کی کیا ضرورت تھی؟ اﷲتعالیٰ اپنے فصیح وبلیغ کلام میں مرزاقادیانی کی طرح اندھا دھند الفاظ کو موقعہ بے موقعہ استعمال نہیں فرمایا کرتے۔
قرینہ نمبر:۷… یہ آیت وفد نجران کی آمد پر نازل ہوئی تھی۔ یعنی عیسائیوں کا ایک گروہ رسول پاکﷺ کے پاس آیا تھا۔ ان کے سوالات کے جوابات میں اﷲتعالیٰ نے یہ آیات آل عمران اتاری تھیں۔ اب ہر ایک آدمی پڑھا لکھا جانتا ہے کہ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کے قائل ہیں۔ اگر فی الواقع حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع جسمانی نہ ہوا ہوتا تو ضرور اﷲتعالیٰ اس کی بھی تردید فرماتے۔ جیسا کہ آپ کی الوہیت کی تردید فرمائی تھی۔ مگر اﷲتعالیٰ نے ’’رافعک الیّٰ‘‘ کا فقرہ بول کر ان کی تصدیق فرمائی۔ جس میں وفد نصاریٰ نے اپنی تصدیق سمجھی اور اس پر بحث ہی نہ کی۔ پھر اگر مان لیا جائے کہ کبھی کبھی رفع کے معنی روحانی بھی ہوتے ہیں تو خدا نے کیوں نصاریٰ کے مقابلہ پر ایسے الفاظ استعمال کئے۔ جس سے ان کو بھی دھوکا لگا۔ وہ اپنی تصدیق سمجھ کر خاموش ہوگئے اور صحابہ کرامؓ اور علمائے اسلام مفسرین قرآن اور مجددین امت محمدیہ مسلمہ قادیانی بھی اسی دھوکا میں پڑے رہے۔ کسی نے رفع عیسوی کے معنی بغیر رفع جسمانی نہ لیئے۔ لیجئے! ایسے مواقع کے لئے ہم مرزاقادیانی کا قول نقل کرتے ہیں۔
’’یہ بالکل غیر ممکن اور بعید از قیاس ہے کہ خداتعالیٰ اپنے بلیغ اور فصیح کلام میں ایسے تنازع کی جگہ میں جو اس کے علم میں ایک معرکہ کی جگہ ہے۔ ایسے شاذ اور مجہول الفاظ استعمال کرے۔ جو اس کے تمام کلام میں ہرگز استعمال نہیں ہوئے۔
(تمام کلام اﷲ میں کہیں بھی صرف رفع الیٰ اﷲ کے معنی رفع روحانی نہیں آئے۔ مؤلف!) اگر وہ ایسا کرے تو گویا وہ خلق اﷲ کو آپ ورطہ شبہات میں ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس نے ہرگز ایسا نہیں کیا ہوگا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۲۹، خزائن ج۳ ص۲۶۷)
اس سے بھی معلوم ہوا کہ چونکہ صرف ’’رفع الیٰ اﷲ‘‘ سے مراد تمام قرآن میں کہیں بھی رفع روحانی نہیں لیاگیا۔ اس واسطے عیسیٰ علیہ السلام کی ’’رفع الیٰ اﷲ‘‘ سے رفع جسمانی مراد ہوگا۔
قرینہ نمبر:۸… آیت کریمہ ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وفات پانے سے پہلے اس وقت کے تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے۔ چونکہ دنیا میں ابھی تک اہل کتاب کفار موجود ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ابھی تک فوت نہیں ہوئے۔ اس لئے ’’رافعک الیّٰ‘‘ سے پہلے ’’انی متوفیک‘‘ کے معنی سوائے قبض جسمانی وروحانی اور نہیں ہوسکتے۔
نوٹ: اس آیت کی مفصل بحث تو آگے آئے گی۔ مگر مناظرین کے کام کی چند باتیں یہاں بھی نقل کرتا ہوں۔
۱… اگر ’’قبل موتہ‘‘ میں ’’ہ‘‘ کی ضمیر کتابی کی طرف راجع ہوتی تو ’’لیؤمنن‘‘ بصیغہ مستقبل مؤکد بہ نون ثقلیہ وارد نہ ہوتا۔ اس کے معنی ’’ایمان لاتے ہیں‘‘ کرنا لغت عرب کے قوانین پر چھری پھیرنے کے مترادف ہے۔ اگر ضمیر کتابی کی طرف پھرتی تو ہر ایک کتابی ایمان لاتا ہوگا۔ اس صورت میں ’’لیؤمن‘‘ چاہئے تھا نہ کہ ’’لیؤمنن‘‘
۲… اگر ضمیر ’’موتہ‘‘ کی کتابی کی طرف پھیری جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے۔ ’’کہ اپنی موت سے پہلے تمام اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے۔ جس قدر یہ معنی بے معنی ہیں اور محالات عقلی ونقلی سے بھرے ہوئے ہیں ان کی تشریح محتاج بیان نہیں واقعات ان معنوں کی تصدیق نہیں کرتے۔ یعنی ہم مشاہدے میں کسی اہل کتاب کو اس حالت میں مرتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ اگر حالت نزع میں ایمان لانے کا جواب دیا جائے تو یہ بھی صحیح نہیں اس وقت کے اقرار کو ایمان نہیں کہتے۔ اگر وہ ایمان کہلا سکتا ہے تو ایسا ایمان تو ہر ایک کافر کو میسر ہوتا ہوگا۔ پھر یہود کے ایمان کی تخصیص کیوں کی گئی؟‘‘
۳… موت سے پہلے تو ہر کتابی کا ایمان مشاہدے کے خلاف ہے۔ اگر اس سے مراد عین موت کے وقت کا ایمان لیا جائے تو وہ ’’قبل‘‘ کے خلاف ہوگا۔ اس صورت میں ’’عند موتہ‘‘ موزوں تھا۔ معلوم ہوتا ہے قادیانیوں کے نزدیک جس طرح کہ خود مرزاغلام احمد قادیانی لغت عرب اور اس کے محاورات بلکہ واحد اور جمع، مذکر اور مؤنث کے فرق سے نابلد محض تھا۔ شاید خدا بھی (نعوذ باﷲ) قبل اور عند کے درمیان فرق نہیں جانتا تھا۔
قرینہ نمبر:۹… آیت کریمہ: ’’وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ میں ’’رفعہ اﷲ الیہ‘‘ کے معنی تمام امت نے متفقہ طور پر رفع جسمانی کے کئے ہیں۔ چونکہ ’’رفعہ اﷲ‘‘ کے معنوں میں تمام امت کا اجماع ہے۔ اس واسطے امت قادیانی کو اجماع امت ماننا پڑے گا۔ یہ میں نہیں کہتا بلکہ بالفاظ مرزاآنجہانی پیش کرتا ہوں۔
’’جو شخص کسی اجماعی عقیدہ کا انکار کرے تو اس پر خدا اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرا مقصود ہے اور یہی میری مراد مجھے اپنی قوم سے اصول اجماعی میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
(انجام آتھم ص۱۴۴، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
کیا کوئی قادیانی ایسا ہے جو قرآن ،حدیث یا لغت عرب میں سے کسی میں یہ دکھائے کہ ’’وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ میں قتل اور رفع جس ترکیب کے ماتحت استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی قتل کی نفی کرکے اس کے بعد رفع کا اعلان کیاگیا ہو تو وہاں رفع کے معنی قبض روح بھی ممکن ہے۔ ہم اعلان کرتے ہیں کہ کوئی قادیانی قیامت تک ایسے موقع پر رفع کا معنی قبض روح نہیں دکھا سکے گا۔
قرینہ نمبر:۱۰… یہ تمام امتوں کا مسلمہ اور متفقہ مسئلہ ہے کہ انبیاء کے لئے ہجرت کرنا مسنون ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے۔
’’ہر ایک نبی کے لئے ہجرت مسنون ہے اور مسیح نے بھی اپنی ہجرت کی طرف انجیل میں اشارہ فرمایا ہے اور کہا کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۱۰۶ حاشیہ)
’’ہجرت انبیاء علیہم السلام میں سنت الٰہی یہی ہے کہ وہ جب تک نکالے نہ جائیں ہرگز نہیں نکلتے اور بالاتفاق مانا گیا ہے کہ نکالنے یا قتل کرنے کا وقت صرف فتنہ صلیب کا وقت تھا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۱۰۸)
اس اصول سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر دوسرے نبیوں کے طریقے پر ہجرت کرنا ضروری تھا یہ بھی معلوم ہوا کہ فتنہ صلیب سے پہلے انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ہجرت سے مراد بے عزتی سے نکل کر عزت حاصل کرنا ہے۔
مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ یہ ہجرت صلیب پر چڑھنے، بے عزت ہونے اور وجود میں میخیں ٹھوکے جانے، منہ پر تھوکے جانے اور یہودیوں کی طرف سے طمانچے کھانے اور قبر میں تین دن تک مردوں کی طرح پڑا رہنے کے بعد اس طرح ہوئی کہ ان کے زخموں کا علاج کیاگیا۔ وہ اچھے ہوئے حواریوں کو چھوڑ کر چپکے چپکے بھاگے بھاگے افغانستان کی راہ لی۔ درۂ خیبر میں سے ہوتے ہوئے پنجاب، یوپی، نیپال، جموں کے راستہ کشمیر میں جاکر سانس لیا۔ وہاں ۸۷ سال زندہ رہ کر خاموشی میں مرگئے۔
سبحان اﷲ! قادیانی نے اپنے اس بیان کے ثبوت میں کوئی ثبوت کلام اﷲ سے، حدیث سے، انجیل سے یا تاریخ سے پیش نہیں کیا۔ لہٰذا یہ سارا واقعہ ایجاد مرزا سمجھ کر مردود قرار دیا جائے گا۔ ہم سے سنئے حضرت مسیح علیہ السلام کی ہجرت کا حال۔
وقت ہجرت تو وہی تھا جو قادیانی نے بیان کیا۔ یعنی فتنہ صلیب کا وقت۔ ہجرت مسیح میں اﷲتعالیٰ نے کئی باتوں کا خیال رکھا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام میں ملکوتیت کا غلبہ تھا۔ کلمتہ اﷲ تھے۔ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ یہود ان کی پیدائش کو ناجائز قرار دیتے تھے۔ اس واسطے اﷲتعالیٰ نے ان کی ہجرت کو بھی آسمان کی طرف رفع کو قرار دیا۔ وہاں وہ قرب الٰہی صحبت ملائکہ اور آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور قرب قیامت میں آکر پھر اپنی گمراہ امت اور اپنے منکر یہودیوں کو دائرہ اسلام میں داخل کریں گے۔ یہ ہے ہجرت عیسوی کی حقیقت۔
کوئی قادیانی کبھی یہ نہیں دکھا سکتا کہ نبی بعد ہجرت کے مصائب وآلام برداشت کر کے گمنامی کی زندگی بسر کرنے کے بعد مرگیا ہو۔ بلکہ نبی بعد ہجرت کے ضرور کامیاب اور عزت حاصل کر کے رہتا ہے۔ قادیانی کی مزعومہ بے سروپا ہجرت مسیحی میں کون سی بات لائق ہجرت انبیاء ہے؟ چونکہ حسب قول مرزاقادیانی حضرت مسیح علیہ السلام نے صلیب سے پہلے تو ہجرت نہیں کی تھی اور واقعہ صلیب کے بعد قرآن اور حدیث اور تاریخ سے ان کی ارضی زندگی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ واقعہ صلیب کے زمانہ ہی میں وہ کہیں ہجرت کر گئے تھے اور وہ جگہ قرآن وحدیث اور اجماع امت کی رو سے آسمان ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ’’انی متوفیک‘‘ کے معنی ’’میں تجھ کو مارنے والا ہوں‘‘ غلط ہیں۔
قرینہ نمبر:۱۱… یہود نے بہت سے سچے رسولوںکو جھوٹا سمجھ کر قتل کرادیا تھا۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔
سورۂ بقرہ:۶۱ وسورۂ آل عمران:۲۱ میں ’’ویقتلون النبیین‘‘ پھر سورۂ آل عمران :۱۱۲ میں دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ’’ویقتلون الانبیاء بغیر حق‘‘ یعنی یہود ناحق اﷲتعالیٰ کے نبیوں کو قتل کر دیتے تھے اور یادرہے کہ صلیب دینا بھی قتل ہے۔
جیسا کہ خود مرزاقادیانی (تحفہ گولڑویہ ص۲۰،۲۲، خزائن ج۱۷ ص۱۰۶،۱۰۸) پر تسلیم کرتے ہیں۔ نیز (ایام الصلح ص۱۱۳،۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۰،۳۵۱) پر صلیبی موت کو قتل ہی تسلیم کیا ہے اور اپنے زعم باطل میں یہودی ان تمام نبیوں کو جھوٹے نبی سمجھ کر قتل کرتے تھے۔ لہٰذا ان سب کو وہ ملعون ہی قرار دیتے تھے۔ ایسا ہی انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو سمجھا۔ (معاذ اﷲ)
اب سوال یہ ہے کیا وجہ ہے کہ
صرف حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں رفع کا لفظ استعمال کیا ہے اور کسی نبی کے حق میں استعمال نہیں فرمایا؟
اگر اس کے معنی قبض روح یا رفع روحانی لئے جائیں تو کیوں دوسرے نبیوں کی خاطر یہ لفظ استعمال نہیں کیاگیا،۔ کیا ان کی طہارت بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی؟
معلوم ہوا کہ ’’رافعک‘‘ کے معنی رفع جسمانی کے بغیر اس آیت میں ممکن ہی نہیں۔ پس جب یہ ثابت ہوا تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ’’انی متوفیک‘‘ کے معنی سوائے قبض جسمانی اور پورا لینے کے ممکن ہی نہیں۔ کیونکہ رفع جسمانی سے پہلے مارنے کی کیا ضرورت تھی؟
بلکہ موت سے بچانے کے لئے رفع جسمانی عمل میں آیا۔
قرینہ نمبر:۱۲… توفی کے معنی قادیانی کے زعم باطل میں سوائے موت دینے کے اور ہوتے ہی نہیں اور مراد اس سے وہ طبعی موت لیتا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں جہاں توفی سے مراد موت لی گئی ہے۔ وہاں ہر قسم کی موت ہے نہ کہ طبعی موت، کوئی ایک جگہ بھی تمام کلام اﷲ سے پیش نہیں کی جاسکتی۔ جہاں توفی کے معنی صرف طبعی موت ہی لئے گئے ہوں۔ پھر یہاں کیوں طبعی موت سے مارنا معنی لئے جائیں؟ اگر صرف موت کے معنی لئے جائیں تو اس میں یہود کے دعویٰ کی تائید ہے نہ کہ تردید اور اس میں بجائے حضرت مسیح علیہ السلام کو یہودیوں کی سازشوں کے خلاف تسلی دینے کے یہودیوں کی کامیابی کا یقین دلایا گیا ہے۔ صلیب بھی قتل کی ایک صورت ہے۔ جیسا کہ میں قادیانی کے اپنے الفاظ سے ثابت کر چکا ہوں اور قتل موت کا ایک ذریعہ ہے۔ یعنی مقتول کے لئے بھی ہم کہہ سکتے ہیں۔ ’’توفاہ اﷲ یا اماتہ اﷲ‘‘ جیسا کہ کلام اﷲ میں توفی کا لفظ سب قسم کی موتوں کے لئے خود قادیانی تسلیم کرتا ہے۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قتل کیا جانا ہر ایک کو معلوم ہے۔ یعنی وہ قتل کی موت مرے تھے۔ مگر پھر بھی اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’سلام علیہ یوم ولد ویوم یموت (مریم:۱۵)‘‘ {یعنی سلام ہے ان پر جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن وہ فوت ہوئے۔} ثابت ہوا کہ اس آیت میں توفی کے معنی طبعی موت کرنا تمام کلام اﷲ کے خلاف ہے اور صرف مارنا کے معنی لینا اس میں یہود کی کامیابی کا اعلان ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی کوئی تسلی نہیں۔ اس واسطے ثابت ہوا کہ ’’انی متوفیک‘‘ میں توفی کے معنی یقینا جسم وروح دونوں پر قبضہ کر کے یہود نامسعود کے ہاتھوں سے حضرت مسیح علیہ السلام کو محفوظ کر لینے کا اعلان ہے۔
قرینہ نمبر۱۳…: ’’وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ اس آیت میں قتل اور رفع کے درمیان تضاد ظاہر کیاگیا ہے۔ قادیانی ’’رفعہ اﷲ‘‘ کے معنی کرتے ہیں کہ خدا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو طبعی موت سے مارلیا۔ صلیبی موت سے بچا کر طبعی موت دینا لعنت کے خلاف ہے۔ ادھر یہ بھی کہتے ہیں کہ: ’’انی متوفیک‘‘ میں بھی یہی اعلان ہے کہ اے عیسیٰ علیہ السلام تو لعنتی موت یعنی صلیبی موت پر نہیں مرے گا۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ
پھر یہاں توفی کا لفظ کیوں استعمال نہیں کیاگیا۔ قتل اور رفع روحانی میں تو کوئی ضد اور مخالفت نہیں۔ کیا حضرت یحییٰ علیہ السلام کو یہود نے قتل نہیں کیا تھا؟
اﷲتعالیٰ نے ان کے حق میں ایسا اعلان کہیں نہیں کیا۔ حالانکہ یہود انہیں بھی نعوذ باﷲ ایسا ہی ملعون سمجھتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو۔ علاوہ ازیں بل کا لفظ بتارہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مزعومہ قتل اور رفع کا وقت ایک ہی ہے۔ مثلاً جب یوں کہا جائے کہ زید نے روٹی نہیں کھائی بلکہ دودھ پیا ہے۔ اس فقرہ میں روٹی کھانے کا انکار اوردودھ پینے کا اقرار ایک ہی وقت سے متعلق ہیں۔ یہ نہیں کہ روٹی تو نہیں کھائی تھی ایک سال پہلے اور دودھ پیا تھا کل، بلکہ روٹی نہ کھانے اور دودھ پینے کے فعل ایک ہی وقت سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح نفی قتل یعنی قتل نہ کیاجانا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اور ان کا رفع عمل میں آنا ایک ہی وقت میں وقوع پذیر ہوئے تھے۔ مگر قادیانیوں کے نزدیک آپ کا رفع روحانی واقعہ صلیب کے ۸۷سال بعد کشمیر میں ہوا۔ اس سے بھی ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ پس توفی عیسیٰ علیہ السلام کے معنی موت کرنے ناممکن ہیں۔
قرینہ نمبر:۱۴… یہود کے مکر کا نتیجہ تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو موت کا سامنے نظر آنا۔ اس کے بالمقابل خدا کے مکر کا ظہور حیات جسمانی کی صورت میں ہونا چاہئے۔ اس ظہور مکر کا وعدہ ’’انی متوفیک ورافعک‘‘ کے الفاظ سے پورا کیاگیا۔ پس ثابت ہوا کہ یہاں توفی موت کے مقابل پر استعمال کیاگیا ہے۔ لہٰذا اس کے معنی موت دینا مضحکہ خیز ٹھہرتا ہے۔
ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ اگر ’’انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘ میں ہم مرزاقادیانی کی ضد مان کر، واو کو خلاف علوم عربیہ ترتیب وقوعی کے لئے قبول بھی کر لیں تو پھر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت ثابت نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اس صورت میں بھی یقینا ان کی حیات ہی ثابت ہوتی ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔