Sunday, June 28, 2015

حیات عیسیٰ علیہ السلام پر قرآنی دلیل نمبر : 8 ( اذ قالت الملئکۃ یمریم ان (آل عمران:۴۵))

0 comments
حیات عیسیٰ علیہ السلام پر قرآنی دلیل نمبر : 8 ( اذ قالت الملئکۃ یمریم ان (آل عمران:۴۵))
قرآنی دلیل نمبر:۸…
’’اذ قالت الملئکۃ یمریم ان اﷲ یبشرک بکلمۃ منہ اسمہ المسیح عیسیٰ ابن مریم وجیہا فی الدنیا والاٰخرۃ(آل عمران:۴۵)‘‘
{جب کہا فرشتوں نے اے مریم اﷲ تعالیٰ تمہیں بشارت دیتے ہیں اپنی طرف سے ایک کلمہ کی۔ جس کا نام ہوگا مسیح عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام وہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی باعزت ہوگا۔}
اس آیت سے حیات عیسیٰ علیہ السلام پر استدلال کا سارا راز اﷲتبارک وتعالیٰ نے ’’وجیہا فی الدنیا‘‘ میں پنہاں رکھا ہوا ہے۔ ہمارا مسلک چونکہ قادیانی مسلمات سے حیات عیسیٰ علیہ السلام پر دلائل قائم کرنا ہے۔ اس واسطے ہم سب سے پہلے ’’وجیہا فی الدنیا‘‘ کی قادیانی تشریح پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد قادیانی اقوال سے ثابت کریں گے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں چڑھائے گئے۔ بلکہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں۔
۱… مرزاقادیانی نے ’’وجیہا فی الدنیا‘‘ کے معنی لکھے ہیں۔ ’’دنیا میں راست بازوں کے نزدیک باوجاہت یا باعزت ہونا۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۶۴، خزائن ج۱۴ ص۴۱۲)
۲… مرزاقادیانی کے نزدیک ’’تمام نبی دنیا میں وجیہہ ہی تھے۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۶۶، خزائن ج۱۴ ص۴۱۴)
۳… (الف) مرزاقادیانی کے لاہوری خلیفہ اپنی تفسیر بیان القرآن میں لکھتے ہیں۔
’’وجیہ‘‘ کے معنی ہیں ذوجاہ یا ذووجاہۃ یعنی مرتبہ والا یا وجاہت والا۔
(ب)’’اﷲتعالیٰ کے انبیاء سب ہی وجاہت والے ہوتے ہیں۔‘‘
(تفسیر بیان القرآن ص۲۱۱، مطبوعہ ۱۴۰۱ھ)
ناظرین باتمکین! اس آیت مبارکہ میں حضرت مریم علیہا السلام کو بطور بشارت کہاگیا ہے کہ وہ لڑکا (عیسیٰ علیہ السلام) دنیامیں بھی اور آخرت میں بھی باعزت، بآبرو اور باوجاہت ہوگا۔ قابل توجہ الفاظ یہاں ’’وجیہا فی الدنیا‘‘ کے ہیں۔ ان الفاظ سے صاف عیاں ہے کہ اس سے مراد صرف دنیوی وجاہت ہی ہے۔ جیسا کہ خود الفاظ ڈنکے کی چوٹ اعلان کر رہے ہیں۔ پھر دنیوی وجاہت سے بھی وہ معمولی وجاہت مراد نہیں ہوسکتی۔ جو دنیا میں کروڑہا انسانوں کو حاصل ہے۔ اس سے کوئی خاص وجاہت (عزت) مراد ہے۔ ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دنیوی وجاہت سے خاص کرنا اور اس کی بشارت کو خصوصیت کے ساتھ بطور پیش گوئی بیان کرنا شان باری تعالیٰ کے لائق نہیں۔ حضرت مریم علیہ السلام کو معمولی دنیوی وجاہت سے قبل از وقت اطلاع دینا قرین قیاس نہیں۔ روحانی وجاہت کا یقین تو حضرت مریم علیہ السلام کو کلمتہ منہ اور ’’وجیہا فی الاٰخرۃ‘‘ اور ’’غلاماً ذکیا‘‘ وغیرہ خطابات ہی سے حاصل ہوگیا تھا۔ ہاں ’’وجیہا فی الدنیا‘‘ کے الفاظ کے اضافہ سے یقینا باری تعالیٰ کا یہ مقصود تھا کہ اے مریم علیہ السلام اس دنیا میں اپنی قوم سے چند روز بدسلوکی کے بعد ہم انہیں تمام جہاں کی نظروں میں باعزت بھی کر کے چھوڑیں گے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو واقعہ صلیب تک دنیوی وجاہت حاصل تھی یا نہ۔ اس کا جواب قادیانی کے اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں۔
’’وجیہا فی الدنیا والاٰخرۃ‘‘ دنیا میں بھی مسیح کو اس کی زندگی میں وجاہت یعنی عزت، مرتبہ اور عام لوگوں کی نظر میں عظمت اور بزرگی ملے گی اور آخرت میں بھی۔ اب ظاہر ہے کہ حضرت مسیح نے ہیرو دوس کے علاقہ میں کوئی عزت نہیں پائی۔ بلکہ غایت درجہ کی تحقیر کی گئی۔‘‘
(رسالہ مسیح ہندوستان میں ص۵۳، خزائن ج۱۵ ص ایضاً)
واقعی مرزاقادیانی سچ کہہ رہے ہیں۔ اس کی تصدیق دیکھنی ہو تو مرزاقادیانی کے بیانات بذیل آیت کریمہ ’’واذ کففت بنی اسرائیل عنک‘‘ گزر چکے۔ وہاں ملاحظہ فرمالیں۔
تصدیق از محمد علی خلیفہ لاہوری قادیانی
’’یہاں اشارہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ سمجھیں گے کہ یہ شخص ذلیل ہوگیا۔ مگر ایسا نہ ہوگا۔ بلکہ اسے دنیا میں بھی ضرور وجاہت ہوگی اور آخرت میں بھی۔ جس قدر تاریخ حضرت مسیح علیہ السلام کی عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ بظاہر انہیں ایک ذلت کی حالت میں چھوڑتی ہے۔ کیونکہ ان کا خاتمہ چوروں کے ساتھ صلیب پر ہوتا ہے۔ مگر اﷲتعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ وہ انبیاء کو کچھ نہ کچھ کامیابی دے کر اٹھاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ’’وجیہاً فی الدنیا‘‘ فرمانا بھی یہی معنی رکھتا ہے کہ لوگ انہیں ناکام سمجھیں گے۔ مگر فی الحقیقت وہ کامیابی کے بعد اٹھائے جائیں گے۔ یہ کامیابی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کے بیت المقدس میں حاصل نہیں ہوئی۔‘‘
(تفسیر بیان القرآن ص۲۱۱، مطبوعہ ۱۴۰۱ھ)
معزز حضرات! جب یہ طے ہوگیا کہ واقعہ صلیب تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دنیوی وجاہت وعزت حاصل نہ تھی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ واقعہ صلیب اور اس کے بعد کے زمانہ میں کیا انہیں یہ وجاہت دنیوی اس وقت تک نصیب ہوئی ہے یا نہ۔ اس کا جواب بھی قادیانی کے اپنے اقوال اور مسلمات سے پیش کرتا ہوں۔ یعنی ابھی تک دنیوی وجاہت اور عزت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حاصل نہیں ہوئی۔
۱… واقعہ صلیبی کو آیت ’’واذ کففت بنی اسرائیل عنک‘‘ کے ذیل میں مذکور مرزاقادیانی کے الفاظ میں پڑھ لیا جائے۔ اگر مرزاقادیانی کا بیان صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس سے بڑھ کر دنیوی بے وجاہتی اور بے عزتی کا تصور انسانی دماغ کے تخیل سے محال ہے۔ یہی حال انجیل کے بیانات کو صحیح ماننے کا ہے۔ ہاں اسلامی حقائق کو قبول کر لینے سے واقعہ صلیبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دنیوی وجاہت کی ابتداء معلوم ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کہ یہود کے مکروفریب کے خلاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزانہ رنگ میں آسمان پر اٹھایا جانا اور یہودنا مسعود کا اپنی تمام فریب کاریوں میں بدرجہ اتم فیل ہو جانا گویا وجاہت کی ابتداء ہے۔
اب ہم واقعہ صلیب کے زمانہ مابعد کو لیتے ہیں۔ اس زمانہ میں یہود اور عیسائی بالعموم یہی عقیدہ رکھتے چلے آئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر چڑھائے گئے اور بالآخر قتل کئے گئے اور اس وجہ سے دونوں مذاہب کے ماننے والے یعنی یہودی اور عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو (نعوذ باﷲ) لعنتی قرار دیتے ہیں۔ اگر قادیانی تصدیقات کی ضرورت ہو تو دیکھو ’’ومکروا ومکر اﷲ واﷲ خیر الماکرین‘‘ کی ذیل میں مذکور ہیں۔ پس کیا کروڑہا انسانوں کا آپ کو لعنتی قرار دینا موجب وجاہت ہے یا بے عزتی؟ پہلے تو صرف مخالف یہودیوں کی نظر ہی میں بے عزت تھے۔ مگر واقعہ صلیب سے لے کر اس وقت تک عیسائی بھی لعنت میں یہود کے ہمنوا ہوگئے۔
قادیانی نظریہ وجاہت عیسیٰ علیہ السلام اور اس کی حقیقت
’’سچی بات یہ ہے جب مسیح علیہ السلام نے ملک پنجاب کو اپنی تشریف آوری سے شرف بخشاتو اس ملک میں خدا نے ان کو بہت عزت دی۔ حال ہی میں ایک سکہ ملا ہے۔ اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام درج ہے۔ اس سے یقین ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس ملک میں آکر شاہانہ عزت پائی۔‘‘
(مسیح ہندوستان میں ص۵۳، خزائن ج۱۵ ص ایضاً)
ناظرین! مرزاقادیانی کے اس بیان کو ایجاد مرزا کہنا ہی زیادہ زیبا ہے۔ کیونکہ یہ سب کچھ مرزاقادیانی کا اپنا تخیل اور اپنے عجیب وغریب دماغ کی پیداوار ہے۔ قرآن، حدیث، تفاسیر، مجددین، انجیل اور کتب تواریخ یکسر اس بیان کی تصدیق اور تائید سے خالی ہیں۔ ہاں اتنا معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی بھی ’’وجیہاً فی الدنیا‘‘ کی تفسیر دنیوی جاہ وجلال اور بادشاہت سے کرتے ہیں۔ کوئی قادیانی حضرات سے دریافت کرے کہ علاقہ ہیرودیس میں مسیح علیہ السلام ساڑھے تینتیس برس تک رہے اور بغیر وجاہت ودنیوی عزت کے رہے۔ دنیوی جاہ وجلال سے بھی عاری رہے۔ باوجود اس کے اس زمانہ میں جو انجیل نازل ہوئی۔ اس کے نام پر انجیل موجود ہے اور ساڑھے تینتیس سال کے حالات سے ساری انجیلیں بھری پڑی ہیں۔ اگر آپ کے بیان میں ذرہ بھر بھی صداقت کا نام ہو تو پنجاب میں جو حضرت مسیح علیہ السلام نے شاہانہ عزت پائی۔ اس زمانہ کے حالات کہاں درج ہیں؟ آپ کے خیال میں واقعہ صلیبی کے ۸۷برس بعد تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ رہے۔ اس علاقہ میں آپ نے جس انجیل کی تعلیم دی وہ کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے؟ بلکہ آپ کا بیان اگر صحیح مان لیا جائے۔ یعنی صلیب کے واقعہ کے ۸۷برس بعد تک حضرت مسیح گمنامی کی زندگی بسر کر کے کشمیر میں فوت ہوگئے تو کیا یہ بھی کوئی دنیوی وجاہت اور عزت ہے کہ جلاوطنی اور مسافری کے مصائب وآلام برداشت کر کے آخر ۸۷برس کے بعد بے نام ونشان فوت ہوگئے؟ سبحان اﷲ! کہ اتنی بڑی وجاہت کے باوجود اوراق تاریخ ان کے تذکرہ سے خالی ہیں۔ طرفہ تریہ کہ تواریخ کشمیر پر یہ الہامی ضمیمہ کسی طرح چسپاں نہیں ہوسکتا۔ بیّنوا وتوجروا!
لیجئے! ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ:
’’وجیہا فی الدنیا‘‘ کا مطلب کیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘
یعنی تمام اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔ مفصل دیکھو اسی آیت کی ذیل میں۔
رسول کریمﷺ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کا حال ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں۔
’’عن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول اﷲﷺ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلاً فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الحرب ویفیض المال حتیٰ لا یقبلہ احدو تکون السجدۃ الواحدۃ خیر من الدنیا وما فیہا ثم یقول ابوہریرۃؓ فاقرؤا ان شئتم وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘
(بخاری ج۱ ص۴۹۰، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا خدا کی قسم عنقریب ابن مریم ’’تم میں اتریں گے‘‘ حاکم عادل ہوکر۔ پھر وہ صلیب (عیسائیوں کے نشان مذہب) کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کرا دیں گے اور بوجہ غلبہ اسلام جہاد کو موقوف کر دیں گے۔ (یعنی جب کفار ہی نہ رہیں گے تو جہاد کس سے کریں گے۔ البتہ شروع میں جہاد ضرور کریں گے) اور مال اتنا فراوان ہو جائے گا کہ کوئی شخص اسے قبول نہ کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک سجدہ ساری دنیا کی نعمتوں سے اچھا ہوگا۔ پھر ابوہریرہؓ نے کہا کہ اگر تم (اس کی تصدیق کلام اﷲ سے) چاہو۔ تو پرھو آیت ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘
دیکھئے ناظرین! یہ ہے وہ وجاہت جس کی بشارت حضرت مریم علیہا السلام کو دی جارہی ہے اور جو اہل اسلام کا عقیدہ ہے۔ بہرحال قادیانی مسلمات کی رو سے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیوی وجاہت سے بکلی محروم رہے۔ حالانکہ قادر مطلق خدا کا سچا وعدہ ہے وہ پورا ہوکر رہے گا۔
تصدیق از مرزاقادیانی
حضرات! مرزاقادیانی کو جس زمانہ میں ابھی مسیح علیہ السلام ابن مریم بننے کا شوق نہیں چرایا تھا تو اس زمانہ میں ان کا بھی وہی عقیدہ تھا جو ستر کروڑ مسلمانان عالم کا ساڑھے تیرہ سو سال سے چلا آرہا ہے۔ براہین احمدیہ اپنی الہامی کتاب میں مجدد ومحدث کا دعویٰ کرنے کے بعد یوں لکھتے ہیں:
’’ھو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہر علی الدین کلہ‘‘
یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے۔ وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۴۹۸،خزائن ج۱ ص۵۹۳ حاشیہ)
’’حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور تمام راہوں اور سڑکوں کو خس وخاشاک سے صاف کر دیں گے اور کج اور ناراست کا نام ونشان نہ رہے گا اور جلال الٰہی گمراہی کے تخم کو اپنی تجلی قہری سے نیست ونابود کر دے گا۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۵۰۵، خزائن ج۱ ص۶۰۱ حاشیہ)
ناظرین! یہ ہے وہ وجاہت جس کی طرف اﷲتعالیٰ حضرت مریم علیہ السلام کو توجہ دلارہے ہیں۔ چونکہ ابھی تک یہ وجاہت حضرت مسیح علیہ السلام کو حاصل نہیں ہوئی۔ پس معلوم ہوا کہ وہ ابھی تک دنیا پر نازل بھی نہیں ہوئے اور بقول مرزاقادیانی ’’نزول جسمانی رفع جسمانی کی فرع ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۲۹۹، خزائن ج۳ ص۲۳۶)
اس واسطے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع جسمانی بھی ثابت ہوگیا۔ ’’فالحمد ﷲ علی ذالک‘‘

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔