Sunday, June 28, 2015

حیات عیسیٰ علیہ السلام پر قرآنی دلیل نمبر: 4 (نسائ:۱۵۹)

0 comments
حیات عیسیٰ علیہ السلام پر قرآنی دلیل نمبر:۴

عربی اعراب کے بغیر:
’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا (نسائ:۱۵۹)‘‘
عربی اعراب کے ساتھ:
وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ۝۰ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكُوْنُ عَلَيْہِمْ شَہِيْدًا۝۱۵۹ۚ

یہ آیت بھی ڈنکے کی چوٹ اعلان کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں فوت نہیں ہوئے۔ اس آیت کا ترجمہ ہم ایسے بزرگوں کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں کہ اگر کسی قادیانی نے اپنی حماقت کے سبب اس کی صحت پر اعتراض کیا تو بحکم مرزاغلام احمد قادیانی کافر وفاسق ہو جائے گا۔
قادیانی اصول و قواعد نمبر : ۴
ترجمہ از شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی مجدد (مسلمہ قادیانی) صدی دوازدہم
(عسل مصفیٰ جلد اوّل ص۱۶۳،۱۶۵)
’’ونباشد ہیچ کس از اہل کتاب الاّ البتہ ایمان آورد بہ عیسیٰ علیہ السلام پیش از مردن عیسیٰ علیہ السلام وروز قیامت باشد عیسیٰ علیہ السلام گواہ برایشان۔‘‘
ترجمہ: ’’اور اہل کتاب میں سے کوئی نہ ہوگا مگر یہ کہ وہ یقینا ایمان لائے گا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن ان اہل کتاب پر اس کی گواہی دیں گے۔‘‘
ناظرین باتمکین! یہ وہ ترجمہ ہے جس پر جمہور علماء مفسرین اور مجددین امت مسلمہ قادیانی تیرہ صدی سال سے متفق چلے آرہے ہیں اور سب اس آیت سے حیات عیسیٰ علیہ السلام پر دلیل پکڑتے چلے آئے ہیں۔ اس سے پہلے جو آیت قرآن کریم میں مذکور ہے وہ وہی ہے جو ہم نے دلیل نمبر:۳ میں بیان کی ہے۔ اس کے پڑھنے یا سننے والے پر یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ اس قدر اولوالعزم رسول کا دنیا میں آنا اور ’’رسولا الیٰ بنی اسرائیل‘‘ کا لقب لینا کیا بے معنی ہی تھا؟ یعنی جس قوم کی طرف وہ مبعوث ہوکر آئے تھے۔ ان میں سے ایک بھی ان پر ایمان نہ لایا اور خدا نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اب آسمان پر وہ کیا کریں گے؟ کیا یہود کے ساتھ ان کا تعلق ختم ہوچکا ہے؟ عملی طور پر اس بات کا کیا ثبوت ہے؟ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ بجسد عنصری موجود ہیں اور مکر اﷲ کا پورا پورا مظاہرہ تو اس طرح مکمل نہیں ہوسکتا کہ یہود دنیا میں موجود رہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھانے اور قتل کرنے کا عملی ثبوت دیتے رہیں۔ یہاں تک کہ دھوکا میں آکر عیسائی بھی ان کے ہمنوأ ہو جائیں۔ اﷲتعالیٰ صرف بذریعہ وحی ہی ان کے دعویٰ قتل کی تردید کرتے ہیں۔ غیر جانبدار شخص ضرور اس تردید کے لئے کوئی عملی ثبوت طلب کرے گا۔ وہ کہہ سکتا ہے کہ یہ وحی من جانب اﷲ نہیں ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی بھی اس تفسیر میں میرے ساتھ کلی اتفاق ظاہر کر رہے ہیں۔
’’جس حالت میں شیطانی الہام بھی ہوتے ہیں اور حدیث النفس بھی تو پھر کسی قول کو کیونکر خدا کی طرف منسوب کر سکتے ہیں۔ جب تک کہ اس کے ساتھ خدا کی فعلی شہادت زبردست نہ ہو۔ ایک خدا کا قول ہے اور ایک خدا کا فعل ہے اور جب تک خدا کے قول پر خدا کا فعل شہادت نہ دے ایسا الہام شیطانی کہلائے گا اور شہادت سے مراد ایسے آسمانی نشان ہیں کہ جو انسانوں کی معمولی حالتوں سے بہت بڑھ کر ہیں۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۹،۱۴۰، خزائن ج۲۲ ص۵۷۷،۵۷۸)
اب غور کیجئے کہ یہاں خداوند کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات جسمانی کا اعلان بذریعہ وحی کر دیا۔ مگر مرزاقادیانی اس پر فعلی شہادت کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہم اس کے جواب میں فعلی شہادت پیش کرتے ہیں اور شہادت بھی کیسی؟ ایسی کہ خود وہ ساری مخالف قوم (بنی اسرائیل) بجائے انکار کے خود بخود اقرار اور اقبال کرنے لگ جائے۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب تک سارے کے سارے اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی برحق اور زندہ بجسدہ العنصری تسلیم نہ کر لیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر موت نہیں آئے گی اور ان کے اس طرح ایمان لانے پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن گواہی بھی دیں گے۔
علاوہ ازیں دنیاسے کسی نبی کا جو صاحب کتاب اور صاحب امت ہو، ناکام جانا سنت اﷲ کے مخالف ہے۔ چنانچہ مرزا قادیانی بھی ہماری تائید میں لکھتے ہیں۔ 
’’ان الانبیاء لا ینقلبون من ہذہ الدنیا الیٰ دار الاٰخرۃ الا بعد تکمیل رسالات‘‘
یعنی انبیاء اس دنیا سے آخرت کی طرف انتقال نہیں فرماتے۔ مگر اپنے کام کی تکمیل کے بعد۔
(حمامتہ البشریٰ ص۴۹، خزائن ج۷ ص۲۴۳)
چنانچہ لکھتے ہیں:
’’سچے نبیوں اور مامورین کے لئے سب سے پہلی یہی دلیل ہے کہ وہ اپنے کام کی تکمیل کر کے مرتے ہیں۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۴۳۴)
اب قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا گئے ہیں تو خواہ وہ آسمان پر زندہ بجسد عنصری ہیں۔ اب ان کے آنے کی ضرورت نہیں اور اگر وہ اپنا مشن اشاعت توحید ورسالت پورا کرنے سے پہلے ہی تشریف لے گئے ہیں تو یہ دوحال سے خالی نہیں۔ اگر مرگئے ہیں اور دوبارہ نہیں آئیں گے تو سنت اﷲ کے مطابق حسب قول مرزا وہ سچے نبی نہ تھے۔ لیکن مرزاقادیانی نے بھی انہیں سچا نبی اور مامور من اﷲ ضرور مانتے ہیں۔ ان کی تبلیغی کامیابی کے متعلق میں صرف مرزاقادیانی کے اقوال ہی نقل کر دینا کافی سمجھتا ہوں۔
۱… ’’یہ کہنا کہ جس طرح موسیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ہاتھ سے نجات دی تھی۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ نے اپنے تابعین کو شیطان کے ہاتھ سے نجات دی۔ یہ ایسا بیہودہ خیال ہے کہ کوئی شخص گو کیسا ہی اغماض کرنے والا ہو اس خیال پر اطلاع پا کر اپنے تئیں ہنسنے سے روک نہیں سکے گا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۲۱، خزائن ج۱۷ ص۳۰۰)
۲… ’’ہدایت اور توحید اور دینی استقامتوں کے کامل طور پر دلوں میں قائم کرنے کے بارہ میں ان کی کارروائیوں کا نمبر ایسا کم درجہ کا رہا کہ قریب قریب ناکام کے رہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۱۱ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۸)
۳… ’’حضرت مسیح تو انجیل کو ناقص کی ناقص ہی چھوڑ کر آسمانوں پر جا بیٹھے۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۳۶۱، خزائن ج۱ ص۴۳۱)
پس سنت اﷲ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی فوت نہیں ہوسکتے۔ جب تک کہ وہ اپنے کام میں کامیاب نہ ہولیں۔ سیاق وسباق کلام بھی یہی تقاضا کرتا ہے۔ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی مختصر سی امت کو فنا کرنا چاہتے تھے۔ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی ان کے ضرر سے بچا لیا۔ ان کی امت کو بھی یہودیوں پر غالب کر دیا۔ مگر مکمل غلبہ اس طرح ہوگا کہ ظاہری غلامی کے بعد جو آج کل یہودیوں پر لعنت دائمی ثابت ہو رہی ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ آخری زمانہ میں ہم عیسیٰ علیہ السلام کو نازل کر کے ان کے منکر یہودیوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا روحانی غلام بھی بنادیں گے۔ ذیل میں ہم چند مجددین واولیاء ملہمین مسلمہ قادیانی کی تفسیر کرتے ہیں۔ اس کے بعد قادیانی اعتراضات کی حقیقت الم نشرح کریں گے۔ امام شعرانی، جو مرزاغلام احمد قادیانی کے نزدیک ’’ایسے محدث اور صوفی تھے جو معرفت کامل اور تفقہ تام کے رنگ سے رنگین تھے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۴۹، خزائن ج۳ ص۱۷۶)
فرماتے ہیں: ’’الدلیل علیٰ نزولہ قولہ تعالیٰ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ای حین ینزل ویجتمعون علیہ وانکرت المعتزلۃ والفلا سفۃ والیہود والنصاریٰ عروجہ بجسدہ الیٰ السماء وقال تعالیٰ فی عیسیٰ علیہ السلام وانہ لعلم للساعۃ… والضمیر فی انہ راجع الیٰ عیسیٰ… والحق انہ رفع بجسدہ الیٰ السماء والایمان بذالک واجب قال اﷲ تعالیٰ بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘
(الیواقیت والجواہر ج۲ ص۱۴۶)
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے پر دلیل یہ آیت ہے۔ ’’وان من اہل الکتاب‘‘ جس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت کے یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ضرور ان پر ایمان لے آئیں گے۔ معتزلہ، فلسفیوں، یہودیوں اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر بمعہ جسم اٹھائے جانے سے انکار کیا ہے۔ حالانکہ فرمایا اﷲتعالیٰ نے دوبارہ رفع جسمانی حضرت مسیح کے ’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ اور ضمیر ’’انہ‘‘ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھرتی ہے… اور سچ یہ ہے کہ وہ بمعہ جسم کے آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور ان کے رفع جسمی پر ایمان لانا واجب ہے۔ کیونکہ فرمایا ان کے متعلق اﷲتعالیٰ نے ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ (بلکہ اٹھا لیا اﷲ نے ان کو اپنی طرف)‘‘
حضرات! یہ وہی امام عبدالوہاب شعرانی ہیں۔ جن کی کلام سے مرزائی مناظرین تحریف لفظی اور معنوی کر کے وفات عیسیٰ علیہ السلام پر استدلال کیا کرتے ہیں۔
معزز ناظرین! اب ہم اس شخص کی تفسیر درج کرتے ہیں جو قادیانی جماعت کے مسلمہ مجدد صدی ہفتم تھے اور آپ ساتویں صدی میں کلام اﷲ کے حقیقی مطالب بیان کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔ اس بزرگ ہستی کا اسم گرامی احمد بن عبدالحلیم تقی الدین ابن تیمیہؒ تھا۔ خود مرزاقادیانی اس امام ہمام کا ذکر خیر ان الفاظ میں فرماتے ہیں۔
’’فاضل ومحدث ومفسر ابن تیمیہ وابن قیم جو اپنے اپنے وقت کے امام ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں۔‘‘
(کتاب البریہ ص۲۰۳حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۲۲۱ حاشیہ)
امام موصوف اپنی بے مثل کتاب ’’الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح‘‘ میں فرماتے ہیں۔
ترجمہ اردو: ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ اس آیت کی تفسیر اکثر علماء نے یہی کی ہے کہ مراد ’’قبل موتہ‘‘ سے ’’حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات سے پہلے‘‘ ہے اور یہودی کی موت کے معنی بھی کسی نے کئے ہیں اور یہ ضعیف ہے۔ کیونکہ اگر موت سے پہلے ایمان لایا جائے تو نفع دے سکتا ہے۔ اس لئے کہ اﷲتعالیٰ توبہ قبول کرتا ہے۔ جب غرغرہ تک نہ پہنچے اور اگر یہ کہا جائے کہ ایمان سے مراد غرغرہ کے بعد کا ایمان ہے تو اس میں کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے کہ غرغرہ کے بعد ہر ایک امر جس کا وہ منکر ہے۔ اس پر ایمان لاتا ہے۔ پس مسیح علیہ السلام کی کوئی خصوصیت نہیں اور یہاں ایمان سے مراد ایمان نافع ہے۔ اس لئے کہ خداتعالیٰ نے اپنی پاک کلام میں اس ایمان کے متعلق ’’قبل موتہ‘‘ فرمایا ہے۔
اس آیت میں ’’لیؤمنن بہ‘‘ مقسم علیہ ہے۔ یعنی قسمیہ خبر دی گئی ہے اور یہ مستقبل میں ہی ہوسکتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ ایمان لانا اس خبر (نزول آیت) کے بعد ہوگا اور اگر موت سے مراد یہودی کی موت ہوتی تو پاک اﷲ اپنی پاک کتاب میں یوں فرماتے۔ ’’وان من اہل الکتاب الا من یؤمن بہ‘‘ اور ’’لیؤمنن بہ‘‘ ہرگز نہ فرماتے اور نیز ’’وان من اہل الکتاب‘‘ یہ لفظ عام ہے۔ ہر ایک یہودی ونصرانی کو شامل ہے۔ پس ثابت ہوا کہ تمام اہل کتاب یہود ونصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت ان کی موت سے پہلے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے ائیں گے۔ تمام یہودی ونصاریٰ ایمان لائیں گے کہ مسیح ابن مریم اﷲ کا رسول کذاب نہیں۔ جیسے یہودی کہتے ہیں اور نہ وہ خدا ہیں۔ جیسے کہ نصاریٰ کہتے ہیں۔ اس عموم کا لحاظ زیادہ مناسب ہے۔ اس دعویٰ سے کہ موت سے مراد کتابی کی موت ہے۔ کیونکہ اس سے ہر ایک یہودی ونصرانی کا ایمان لانا ثابت ہوتا ہے اور یہ واقع کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ جب خداتعالیٰ نے یہ خبر دی کہ تمام اہل کتاب ایمان لائیں گے تو ثابت ہوا کہ اس عموم سے مراد عموم اور لوگوں کا ہے۔ جو نزول المسیح کے وقت موجود ہوں گے۔ کوئی بھی ایمان لانے سے اختلاف نہیں کرے گا۔ جو اہل کتاب فوت ہوچکے ہوں گے وہ اس عموم میں شامل نہیں ہوسکتے۔ یہ عموم ایسا ہے۔ جیسے یہ کہا جاتا ہے۔ ’’لا یبقی بلد الا دخلہ الدجال الا مکۃ والمدینۃ‘‘ پس یہاں مدائن (شہروں) سے مراد وہی مدائن ہوسکتے ہیں جو اس وقت موجود ہوں گے اور اس سے ہر ایک یہودی ونصرانی کے ایمان کا سبب ظاہر ہے وہ یہ کہ ہر ایک کو معلوم ہو جائے گا کہ مسیح علیہ السلام رسول اﷲ ہے۔ جس کو اﷲتعالیٰ کی تائید حاصل ہے۔ نہ وہ کذاب ہیں نہ وہ خدا ہیں۔ پس اﷲ تعالیٰ نے اس ایمان کا ذکر فرمایا ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے تشریف لانے کے وقت ہوگا۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع اس آیت میں ذکر فرمایا ’’انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘ اور مسیح علیہ السلام قیامت سے پیشتر زمین پر اتریں گے اور فوت ہوں گے اور اس وقت کی خبر دی کہ سب اہل کتاب مسیح کی موت سے پیشتر ایمان لائیں گے۔‘‘
(الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح ج۲ ص۲۸۱،۲۸۳)



0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔